دس ارب روپے کی خاموشی

April 27, 2017

شاید کسی خاموشی کی قیمت دس ارب روپے بھی ہوسکتی ہے یہ انکشاف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس بیان سے حاصل کیا جاسکتا ہے کہ حکومت نواز شریف نے انہیں پاناما لیکس کے معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کے عوض دس ارب روپے دینے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے مسترد کردی ہے ورنہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے خاموشی اختیارکرکے پہلے سے دس ارب روپے زیادہ امیر ہو چکے ہوتے۔میرے بہت سے پڑھنے والوں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ دس ارب روپے کتنے ہوتے ہیں اور وہ کس کام آسکتے ہیں۔ عام زبان میں دس ارب روپے ہزار کروڑ کے برابر ہوتے ہیں اور ہزار کروڑ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ میرے جیسے شخص نے اپنی زندگی میں کبھی ایک کروڑ روپے کے برابر بھی نہیں دیکھے اور میرے خیال میں چند کروڑ روپے کی مالیت کے اخراجات میں پوری زندگی آسانی اور سکون سے گزر سکتی ہے۔کچھ اندازہ لگایا نہیں جاسکتا کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں بددیانتی، کرپشن اور دیگر بداخلاقیوں کےمظاہروں میں جو اضافہ ہو چکا ہے اس کا ابلاغ، شعور اور علم کتنے اور کیسے کیسے لوگوں کو حاصل ہوگا اور اگر ان لوگوں کو خاموش رکھنے پر مجموعی طور پر کتنا خرچ آنے کا اندازہ ہوگا اور کیا ہمارے ملک کے لوگ عمران خان جیسی ہمت اور جرأت رکھتے ہوں گے کہ خاموش رہنے سے انکار کردیں اور دس ارب روپے کی مالیت کا معاوضہ مسترد کردیں۔ گزشتہ دنوں ہمارے ایک فاضل چیف جسٹس نے ملک میں مچائے جانے والے ضرورت سے زیادہ شور شوابے کی شکایت کی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ شور وہ لوگ مچا رہے ہوں گے کہ جو خاموش رہنے کی ہمت نہیں رکھتے یا جن کو خاموش رہنے کے لئے اربوں روپے کا معاوضہ دینے کا وعدہ نہیں کیاگیا۔عالمی سطح پر ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیا کہ دنیا کے 63ملکوں میں پاکستان آخری نمبر پر موجود ہے کہ جہاں کے سب سے کم لوگ نظریاتی سیاست کرتے ہیں یہاں کے سو میں سے صرف بارہ لوگ سیاست یا نظریاتی سیاست کا علم رکھتے ہیں جن کا تعلق مڈل اور اپر مڈل کلاس کے طبقے سے ہے۔ 63 ملکوں میں سے ایک ملک مصر ہے جہاں نظریاتی سیاست کی جانب سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ نظریاتی سیاست اگر دنیا کے لوگوں سے دور ہوئی ہے تو لوگ بھی نظریاتی سیاست سے دور ہوئے ہیں اور دور ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی سرمایہ دار نظام میں نظریاتی سیاست کی جو درگت بنائی جا رہی ہے وہ سیاست کہلانے کے قابل بھی نہیں رہے گی اور دنیا بھر کے لوگ امیروں کو اور زیادہ امیر بنانے اور غربت کو دور دور تک پھیلانے والی نظریاتی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس سے نجات چاہتے ہیں غریبوں، محتاجوں، ضرورت مندوں کاساتھ دینے والے اور ان کے مسائل حل کرنے والے معاشی نظام کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں اور جب تک یہ نظام نافذ نہیں ہوگا دنیا میں خونی انقلاب کے برپا ہونے کے اندیشے بڑھتے جائیں گے اور ان اندیشوں کے اندر سے اچھی اور مثبت باتیں بھی برآمد ہوسکتی ہیں۔

.