خدارا بچوں پہ نظر رکھیں

May 01, 2017

پاناما کیس کا فیصلہ ملکی منظرنامے پرایسا چھایا کہ انتہائی اہم واقعات بھی اس سے اٹھنے والی دھول میں گم ہو گئے۔ متاثر ہونا فطری امر تھا اسلئے گزشتہ ہفتے کالم کا موضوع تبدیل کرنا پڑا لیکن معاملہ اتنا تشویش ناک ہے کہ اس سے نظریں چرانا نا ممکن ہے کیوں کہ اس کا تعلق نوجوانوں اور آئندہ نسل کے مستقبل سے ہے۔ نورین لغاری نوجوان ہی تو ہے جو ابھی یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز جامشورو میں سیکنڈ ائیر کی طالبہ تھی، تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود گمراہی کی ایسی دلدل میں دھنس گئی کہ دوسروں کے بچوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے والے پروفیسر باپ کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ ان کی بیٹی بھی دہشت گردوں کا آلہ کار بن سکتی ہے۔ نوشتہ دیوار تو یہ ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے نورین لغاری کو ورغلانے والے دہشت گردوں کے نیٹ ورک نے مستقبل کی مسیحا کو انتہا پسندی کی ایسی ترغیب دی کہ وہ خود کش حملے کیلئے بھی تیار ہو گئی جس کا ا عتراف وہ خود کر چکی ہے۔ نورین لغاری کی برین واشنگ کرنیوالے گروہ کا تعلق اس شدت پسند تنظیم دولت سلامیہ (داعش) سے ہے جس کی پاکستان میں موجودگی سے تب تک مسلسل انکار کیا جاتا رہا جب تک کہ دو سال قبل اس نے صفورا گوٹھ دہشت گردی کی ذمہ داری قبول نہ کر لی۔ بلا شبہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں اوردہشت گرد قبائلی علاقوں اور مغربی سرحد کے ساتھ اپنی انتہائی محفوظ کمین گاہیں چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ پسپا ہونیوالے پاکستان کے بزدل دشمن گروہ ایک دوسرے میں ضم ہو کر یا الحاق کر کے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کا کاری وار آزما رہے ہیں جس کی تصدیق عسکری اداروں کی تحویل میں موجود سفاک دہشت گرد احسان اللہ احسان بھی اپنے اعترافی بیان میں کر چکا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے والدین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ وہ دہشت گردوں کا نشانہ نہ بن پائیں۔ کالعدم تنظیموں کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے معصوم ذہنوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کرنے کی سرگرمیاں گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہیں جن میں اب کافی شدت آ چکی ہے۔ اس انتہائی مہلک خطرے کی نشان دہی میں نے ڈھائی سال قبل اسلام آباد کے رہائشی ایک غریب باپ کی دہائی کو موضوع تحریر بنا کر کی تھی۔ اب دہشت گرداحسان اللہ احسان کے اعترافی بیان نے در بدر کی ٹھوکریں کھانے والے لاچار والد کیلئے پھر سے امید کی ایک کرن جگا دی ہے کہ شاید اس کے جگرگوشے کا کوئی سراغ مل جائے۔ واقعہ یوں ہے کہ نومبر دو ہزار چودہ میں ایک شخص اپنی فریاد ارباب اختیار تک پہنچانے کیلئے میرے پاس آیا ،اس کی نم آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھیں۔ ا س کی حا لت اس فقیر جیسی تھی جس کی عمر بھر کی کمائی دن دیہاڑے لوٹ لی گئی تھی۔ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس شخص کا نام سید شہزاد اقبال تھا اور وہ اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون ٹو کا رہائشی تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کی دو بیٹیاں اور ایک اکلوتا بیٹا ہے،بیٹے کا نام سید احمد شہزاد ہے اور وہ اسلام آباد کے ماڈل کالج فار بوائز ایف ایٹ فور میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ ہر جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کرنیو الے اس پندرہ سالہ ذ ہین بچے کی دینی تربیت بھی اس طرح کی گئی تھی کہ وہ پانچ وقت کیلئے محلے کی مسجد میں جا کر با جماعت نماز پڑھتا تھا۔ اٹھائیس اکتوبر دو ہزار چودہ کی شام وہ عصر کی نماز ادا کرنے گھر سے ملحقہ جامع مسجد گیا لیکن اس کے بعد واپس نہ آیا۔ باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے کی تلاش کیلئے مارا مارا پھرتا رہا جبکہ پرائمری اسکول میں بطور ٹیچر فرائض ادا کرنے والی اہلیہ، لخت جگر کو دیکھنے کے لئےبین کرتی رہی۔ شام کے سائے گہرے ہو گئے لیکن پنچھی لوٹ کے نہ آیا۔ گھر میں موجود اس کی اشیا کی چھان پھٹک کی گئی تو ذاتی ڈائری میں حیدر نامی ایک شخص کا نمبر لکھا ملا جو کہ افغانستان کا تھا۔ رابطہ کرنے پر خالص اردو لہجے میں بات کرنے والے حیدر نے تڑپتے ہوئے والدین کو تسلی دی کہ آپ کا بیٹا خیریت سے ہے اور ایک گھنٹہ بعد آپ سے اس کی بات کرا دی جائے گی۔ ایک گھنٹے بعد موبائل کی گھنٹی بجی تو اسکرین پر ظاہر ہونیوالا نمبر بھی افغانستان کا ہی تھا۔ اس بار بولنے والے شخص احمر کا لہجہ پشتون تھا، اس نے احمد شہزاد کو فون دیا تو والدین بیٹے کی آواز سن کر بلکنے لگے۔ بیٹے نے انکشاف کیا کہ وہ جس جگہ موجود ہے وہاں کالعدم تحریک طالبان کا رہنما احسان اللہ احسان بھی آتا ہے۔ مختصر بات چیت کے بعد لائن کٹ گئی جس کے بعد دوبارہ کبھی رابطہ نہ ہو سکا۔ بھاگ دوڑ کے دوران انکشاف ہوا کہ ان کا بیٹا احمد شہزاد فیس بک استعمال کیا کرتا تھا۔ پہلے وہ اپنے نام سے اکاؤنٹ آپریٹ کرتا تھا جہاں اس کا رابطہ کالعدم طالبان نیٹ ورک کے افراد سے ہوا،انہوں نے احمد شہزاد کو پھر خود ایک اکاؤنٹ بنا کے بھیجا جس پر وہ اس سے رابطہ کرتے رہے۔ یہ فیس بک اکاؤنٹ سید جراح خراسانی کے نام سے بنایا گیا تھا جسے احمد شہزاد کے مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے بعد بند کر دیا گیا۔ اس واقعے کو ڈھائی سال گزر چکے احمد شہزاد کے بوڑھے والدین تاحال اس کی واپسی کی راہ تک رہے ہیں اور انہوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر سے اپیل کی ہے کہ دہشت گرد احسان اللہ احسان سے ان کے لخت جگر کے بارے میں معلومات لی جائیں تاکہ ان کے بے قراردل کو سکون مل سکے۔ قارئین حیدر آباد کی نورین لغاری اور اسلام آباد کے احمد شہزاد کے سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جانے کے واقعات ان والدین کیلئے ایک سبق ہیں جو بچوں کو دنیا کی ہر آسائش دینے کی فکر میں تو غلطاں ہیں لیکن وہ یہ جاننے کا تردد نہیں کرتے کہ ان کے بچے دستیاب سہولتوں کا استعمال کیسے کر رہے ہیں۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا ہے اور اب اسمارٹ فون کے ذریعے پوری دنیا انگلیوں کی جنبش اور ایک چھوٹی سی اسکرین میں سمٹ چکی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد دو کروڑ باسٹھ لاکھ سے تجاوزکر چکی ہے جبکہ براڈ بینڈ کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد دو کروڑ ترانوے لاکھ ہو چکی ہے۔عام شہریوں کے ساتھ اب سیاست دان،کاروباری افراد اور مختلف شعبہ جات کی مشہور شخصیات بھی سماجی رابطے کی ایپلی کیشنز کے ذریعے مطلوبہ افراد کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے پاکستان میں روایتی سیاست کوبھی تبدیل کر دیا ہے۔ اہم اداروں کے ترجمان بھی اب اطلاعات کی فراہمی کیلئے سوشل میڈیا کا ہی سہارا لیتے ہیں۔۔ دنیا بھر میں شدت پسندوں کو سوشل میڈیا کی سائٹس استعمال کرنے سے روکنے کے کماحقہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی گزشتہ سال الیکٹرانک جرائم کے تدارک کا اہم بل منظور کیا ہے۔ برطانیہ میں تین طالبات کے شام جانے کے بعد اسکولوں میں ایک خاص سافٹ وئیر متعارف کرایا گیا ہے جس کے ذریعے طلبا کی آن لائن سرگرمیوں پہ نظر رکھی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیکٹا، انٹیلی جنس ادارے ،وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور متعلقہ ارباب اختیار سوشل میڈیا کے ذریعے معصوم بچوں کو ورغلا کر دہشت گردی کی طرف مائل کرنے کی خوفناک حکمت عملی کے آگے فوری طور پر بند باندھنے کے اقدامات یقینی بنائیں۔ تعلیمی اداروں اور گھروں میں بچوں کو درپیش خطرے کے بارے میں پیشگی آگہی دی جائے۔سب سے اہم ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انٹر نیٹ استعمال کرنے والے بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نگرانی رکھیں تاکہ معصوم ذہنوں کو شدت پسندوں کی برین واشنگ کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔



.