پاک افغان کشیدگی ختم ہونی چاہئے

May 08, 2017

پاکستانی سرحدی شہر کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں افغان فوج کی جانب سے مردم شماری کو سبوتاژ کرنے کے لیے جارحانہ کارروائی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان فضا بدستور کشیدہ ہے جس کے سبب سرحدی دیہات خالی کرا لینے کی نوبت آگئی ہے۔ پاک افغان سرحدی حکام کے درمیان ہونے والی فلیگ میٹنگ میں افغان حکام کے رویے کے پیچھے بھارت کی پشت پناہی بہت واضح ہے۔ بھارت کا مقبوضہ کشمیر سے اور افغانستان کا اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کیلئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا بھارتی سازش کا حصہ نظر آتاہے ۔ سرحدی شہر کلی لقمان اور کلی جہانگیر پاکستان کا حصہ ہیں اور دونوں ملکوں کے سرحدی حکام کے درمیان ہفتے کے روز ہونے والی فلیگ میٹنگ میں پاکستانی وفد نے ثبوت بھی پیش کئے کہ ان شہروں میں بجلی، اسپتال ،اسکول اور ان کے باشندے سب پاکستانی ہیں، گوگل سرچ میں بھی یہ دونوں شہر پاکستان کا حصہ ہیں۔ پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا بھی یہی ہے کہ افغانستان بھارت کے ایما پر پاکستان سے کشیدگی بڑھا رہا ہے حالانکہ بھارتی انتہا پسند ہندو کبھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا وہ صرف دونوں برادر ملکوں کو آپس میں الجھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتاہے۔ جبکہ پاکستان ہمیشہ ہرکڑے وقت میں افغانستان کے ساتھ کھڑا رہا اوراس کے ساتھ ہر ممکن تعاون روا رکھتا چلا آرہا ہے۔ چالیس لاکھ افغان بھائیوں کی تیس سال تک میزبانی اخوت کی ایک لازوال مثال ہے۔اب بھی پاکستان کی کوشش ہے کہ افغانستان فی الواقع خود مختار ملک بنے اور اپنے فیصلے خودکرے۔ پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا بجا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان افغانستان کے ساتھ مل کر ہر محاذ پر کام کرنے کو تیار ہے۔ دونوں ملکوں کا مذہب، رسم و رواج تاریخ، تہذیب ایک ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔ لہٰذا تلخیاں جلد از جلد ختم ہونی چاہئیں اورحالات معمول پر لانیکے لیے دونوں جانب سے پورے اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں۔

.