ایران کے سیاسی نظام میں سپریم لیڈر کا عہدہ طاقتور ترین

May 19, 2017

لاہور ( رپورٹ:نوید طارق )برادر ہمسایہ ملک ایران میں1979ء کاانقلاب مغربی طاقتوں کے حمایت یافتہ محمد رضا شاہ کے ہی نہیں بلکہ نصف صدی سے زائد پر محیط پہلوی خاندان کے قائم کردہ نظام کے خلاف بھی تھا ۔ انقلاب کے بعد جو نیا ریاستی نظام ترتیب دیا گیا اس میں عوامی امنگوں کے مطابق منتخب پارلیمنٹ کی تشکیل کے ساتھ ساتھ انقلاب کے تحفظ کے لیے بہت سے ادارے تخلیق کیے گئے جن میں سب سے طاقتور’’ رھبر معظم ‘‘یعنی سپریم لیڈر ہے ۔جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل نے ایرانی صدارتی انتخابات کے تناظر میں سوئس جامعہ ’’ یونیورسٹی آف برن‘‘ کے ایرانی آئین کی انگریزی ٹرانسلیشن ، ایران لاء لائبریری ،واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی کے پیٹرک کلاسن اور امریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ کے مائیکل روبن کی کتاب ’’Eternal Iran‘‘اور دیگر ذرائع سے حاصل شدہ معلومات پر مبنی ایرانی سپریم لیڈر کے اختیارات اور ایرانی سیاسی و ریاستی نظام میں عہدے کے کلیدی کردا ر کے حوالے سے جو رپورٹ تیارکی ہے اس کے مطابق عملاًسپریم لیڈرکا عہدہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ایوان اور صدر سے بھی طاقتور ہے ۔سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے والی 88رکنی ’’مجلس خبر گان رھبری ‘‘یعنی اسمبلی آف ایکسپرٹس کو8سال کے لیے عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے ، اراکین کو مجتہد کہا جاتا ہے ۔ مجلس ایران سپریم لیڈر کے انتخاب ،نگرانی اور معزولی کا اختیاررکھتی ہے ۔سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے مجلس کے اراکین آپس میں مشاورت کرتے ہیں اور آئینی معیارات (اسلامی دانشوری ، انصاف ، رحم ، درست سیاسی و سماجی بصیرت ، دانائی ، جرات ، انتظامی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتیں ) کے تحت فیصلہ کرتے ہیں ۔ سپریم لیڈر کی جانب سے ایرانی آئین کی خلاف ورزی یاسپریم لیڈر کے انتخاب کے بعد مطلوبہ صلاحیت کی کمی کے انکشاف کی صورت میں مجلس اسے عہدے سے ہٹا سکتی ہے تاہم آج تک کی ایرانی انقلابی تاریخ میں ایسی کوئی مثال قائم نہیں ہوسکی ۔تاہم قابل ذکر امر یہ ہے کہ مجلس کے رکن بننے کے امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ12رکنی ’’شوریٰ نگھبان‘‘یعنی گارڈین کونسل کرتی ہے ۔ گارڈین کونسل آئین کی وضاحت ، انتخابات کی نگرانی کے علاوہ ایرانی صدارتی ، اسمبلی آف ایکسپرٹس اورمجلس یعنی پارلیمنٹ کے امیدواروں کی منظوری ، پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی قانون سازی کا آئین اور اسلامی اصولوں کے مطابق افادیت کا جائزہ بھی لیتی ہے ۔گارڈین کونسل ایران میں قانون سازی کے لیے شوریٰ اسلامی شعار کی کسی ایک تعریف کے لیے بھی مرکزی کردا ر ادا کرتی ہے ۔ اس لیے گارڈین کونسل پارلیمنٹ کے لیے اصلاح پسند امیدواروں کو نااہل اور پارلیمنٹ کی اکثریت کی جانب سے پاس کیے گئے قوانین کو ویٹو مسلسل ویٹو کرتی رہتی ہے ۔ 6فروری 1988ء کو ایرانی آئین میں ترمیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ ( مجلس ) اور گارڈین کونسل کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے 39رکنی ’’ مجمع تشخیص مصلحت نظام ‘‘ یا Expediency Discernment Council تشکیل دی گئی جس کے اراکین کا انتخاب سپریم لیڈر ہر 5سال کے لیے کرتا ہے ۔ گارڈین کونسل 1998ء میں سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے چھوٹے بھائی ، ایرانی پارلیمنٹ (مجلس ) کے سابق اسپیکر ، ایرانی سیاسی نظام میں زیادہ آزادی اور جمہوریت کے لیے اصلاحاتی ایجنڈے کا مطالبہ کر نے والے ’’ اصلاح طالبان ‘‘ کے اہم رہنما ہادی خامنہ ای کی اسمبلی آف ایکسپرٹس کے انتخاب کے لیے امیدوار بننے کی درخواست ’’ ناکافی دینی صلاحیت ‘‘ کو بنیاد بنا رد کر چکی ہے ۔ قدامت پرستوں کی جانب سے 2000ء کے پارلیمانی انتخابات میں بری کار کردگی کے بعد گارڈین کونسل نے 2004ء کے انتخابات میں 3600سے زائد اصلاح پسند اور آزاد امیدواروں کو نااہل کیا ۔ کونسل نے 2006ء میں اسمبلی آف ایکسپرٹس کے رن اپ الیکشن کے لیے تمام خواتین امیدواروں کو نااہل کر دیا ۔