انجمن یک طرفہ بے تکلفانِ شہر !

May 26, 2017

کچھ عرصہ پیشترہم نے فوری طور پر بے تکلف ہو جانے والے لوگوں کے بارے میں ایک کالم لکھا جس سے ہماری بھڑاس قدرے نکل گئی، لیکن بہت سے دوستوں کی تسلی نہیں ہوئی اور اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ان لوگوں کے ’’متاثرین‘‘ کی تعداد تو بہت زیادہ ہے ۔نیز یکطرفہ بے تکلفان شہر کے لگائے ہوئے زخم خاصے کاری ہیں تبھی تو ایک کالم سے ’’پبلک‘‘ کے یہ زخم مندمل نہیں ہوئے۔مثلاً ایک زخم خوردہ ہمیں گزشتہ روز ملے یہ ایک فرم کے جنرل منیجر ہیں کہنے لگے ’’ایک اسی قسم کے یکطرفہ بے تکلف نے میری زندگی بھی اجیرن کی ہوئی ہے، خدا کے لئے مجھے بچائو‘‘ ہم نے ہنستے ہوئے پوچھا ’’کیا ہوا ؟‘‘ یہ دکھی شخص بولا ’’پوچھو کیا نہیں ہوا؟ ایک روز ان صاحب نے فون کیا اور میری سیکرٹری سے کہا ’’تھیلا ہے ؟‘‘ اس بے چاری نے حیران ہو کر پوچھا ’’کون سا تھیلا ؟‘‘ اس پر اس مردود نے کہا ’’وہ تھیلا جسے تم لوگ طفیل کہتے ہو، وہ باس تمہارا ہو گا میرا تو دوست ہے ‘‘
’’تو کیا یہ تمہارا دوست نہیں ہے ؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’دوست ہوتا تو کوئی بات بھی تھی ‘‘ اس مظلوم نے روہانسا ہو کر کہا ’’ ایک دفعہ ایک ریستوران میں اس سے ملاقات ہوئی تھی یہ وہاں میرے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا تھا تھوڑی دیر میں یہ مجھ سے بے تکلف ہو گیا اور تو تو میں میں پر اتر آیا ۔ بعد میں ،میں نے اپنے دوست سے کہا اگر یہ تمہارا دوست نہ ہوتا تو میں اسے اس طرز عمل کی اجازت نہ دیتا ۔یہ سن کر اس دوست نے خود کو دو ہتڑ رسید کئے اور کہا میں تو اس روز سے تمہارا دوست سمجھ کر اسے برداشت کرتا چلا آ رہا ہوں میں نے اس کمبخت کی اس سے پہلے کبھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی یہ تو میرے آنے سے پہلے میرے ایک دوست کے ساتھ اس میز پر بیٹھا ہوا تھا۔‘‘
ایک اور دوست سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی اسی طرح جلا بیٹھا تھا دیکھتے ہی بولا ’’ تم نے اپنے کالم میں جن یکطرفہ طور پر بے تکلف ہونے و الوں کا ذکر کیا تھا وہ تو بڑے بھلے مانس لوگ تھے تم کسی روز میرے دفتر آئو میں تمہیں ایک اصلی بے تکلف دکھائوں!‘‘
’’وہ کیا چیز ہے ؟‘‘ ہم نے پوچھا ۔
’’وہ ؟صبح مجھ سے پہلے میرے دفتر میں پہنچا ہوا ہوتا ہے، میں جب دروازہ کھول کر اپنے کمرے میں داخل ہوتا ہوں تو وہ میری کرسی پر بیٹھا ٹانگے میز پر پھیلائے کسی سے ٹیلی فون پر بات کر رہا ہوتا ہے وہ مجھے مہمانوں کے لئے بچھی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے اس کے سامنے چائے کی پیالی دھری ہوتی ہے وہ گفتگو سے فراغت کے بعد گھنٹی بجا کر میرے چپڑاسی کو بلاتا ہے اور کہتا ہے صاحب کو چائے پیش کرو‘‘۔
’’بھئی واہ ‘‘ ہم نے اپنے اس دوست کو چھیڑنے کے لئے کہا ’’دوستی ہو تو ایسی ہو !‘‘
’’دوستی ؟‘‘ اس نے ہسٹریائی انداز میں چیخ کر کہا ’’ یہ جس محکمہ میں ملازم ہے میری فرم کو ایک دفعہ اس سے کوئی کام پڑا تھا بس اس وقت سے بدبخت مجھے چمٹا ہوا ہے۔ اس نے مجھے زندہ درگور کر دیا ہے اور میرا مجاور بن گیا ہے۔خدا کے لئے مجھے اس کے چنگل سے نکالو ‘‘۔البتہ ایک دوست ایسے بھی تھے جن کا مسئلہ متذکرہ دوستوں سے قدرے مختلف تھا گزشتہ روز ملے تو کہا ’’تم بزرگوں کے احترام کے قائل ہو ؟‘‘ ہم نے کہا’’ یقیناً کیونکہ بالاخر ہم نے بھی بزرگی کی منزل تک پہنچنا ہے ۔‘‘ پوچھنے لگے ’’کیا بزرگوں کو بھی چھوٹوں کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے ‘‘ ہم نے جواب دیا ’’ یہ ان کے حق میں بہتر ہے !‘‘ اس پر وہ گلوگیر ہو گئے اور کہنے لگے ’’مگر ان بزرگوں نے تو اپنی بے تکلفی سے ہمارا کچومر نکال دیا ہے یہ جب ملنے آتے ہیں تو میں ان کی عزت کرتا ہوں اور یہ مجھے برخودار ،عزیزی اور نور چشمی وغیرہ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر اپنے کام کے سلسلے میں گاہے بگاہے ملنے والے ان سینکڑوں بزرگوں کی باتوں سے لگتا ہے جیسے ایام طفولیت میں ان سب نے باری باری مجھے اپنی گود میں پالا تھا میں نے بچپن میں ان میں سے ہر دوسرے بزرگ کی گود میں ’’چھی‘‘ کرکے اس کے کپڑے ناپاک کئے تھے میرے لئے دودھ یہ گرم کیا کرتے تھے اور فیڈر میں بھر کر مجھے پلایا بھی یہی کرتے تھے ۔ میں یہ باتیں اتنے تواتر سے سنتا ہوں کہ بھول جاتا ہوں کہ اب میں خود بھی کئی بچوں کا باپ ہوں چنانچہ اب صورتحال یہ ہے کہ بسااوقات بیٹھے بیٹھے انگوٹھا چوسنے لگتا ہوں ۔یار خدا کے لئے مجھے اس ’’انجمن یکطرفہ بے تکلفان شہر ‘‘ کے بزرگ اراکین سے بچائو نہیں تو تباہ ہو جائوں گا کیونکہ کچھ دنوں سے میرا جی چاہ رہا ہے کہ کرسی پر بیٹھنے کی بجائے پنگھوڑے میں لیٹ کر ٹانگیں چلانا شروع کردوں اور ان بزرگوں میں سے کوئی آئے تو لپک کر اس کی گود میں سوار ہو جائوں اور پھر چپکے سے ’’چھی‘‘ کر دوں !‘‘27نومبر 1981ء۔

.