پیپلز پارٹی، اے این پی میں فاصلے

June 04, 2017

رمضان المبارک سے چند روز قبل اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کراچی تشریف لائے ۔ اس موقع پر انہوںنے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ بلاشبہ یہ مثالی جلسہ اے این پی کے صوبائی سربراہ سینیٹر شاہی سید کی کاوشوں کا مظہر تھا۔ جناب اسفند یار صاحب اگرچہ علیل تھے لیکن چھ سات سال بعد اے این پی نے سندھ بالخصوص کراچی میں چونکہ سیاسی سرگرمیوںکے دوبارہ آغاز کا فیصلہ کیا تھا اس لیے کارکنوں کی خواہش تھی کہ خان صاحب اس جلسے سے خطاب کریں۔ اے این پی پلِ صراط پر سے گزرتے ہوئے اس مقام تک آپہنچی تھی۔ لیکن نہ تو سرخ پوش کارکنان تھکے ہوئے نظر آئے اور نہ ہی ان کے قائدین طویل آزمائشوں کے باوجود کوئی شکوہ زبان پر لائے۔ دراصل یہ باچا خان کی تحریک ہی کا طرہ امتیاز ہے کہ راہِ حق میںزبان پر اُف تک نہیںلانا ہے۔ وگرنہ کیا کیا گراں مایہ اصحاب گزشتہ آٹھ سال میں دہشت گردوں کی سفاکی کا نشانہ بنے۔ خود اسفند یار ولی خان پر خود کش حملہ ہوا تھا، محفوظ یوں رہے کہ جان نثار ساتھی جاں وار گئے۔آپ کو یاد ہوگا کہ ولی باغ میںجب ایک خودکش حملہ آور اسفندیار ولی کی جانب بڑھ رہاتھا، تو ایک سرُخ پوش یارزمین نے اُسے دبوچ لیا تھا ، اِس کشمکش میں یار زمین جان سے گئے لیکن قاتل کومزید ایک قدم بھی اپنے قائد تک اُ ٹھانے نہ دیا۔
جورُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گرز گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
مقام افسوس ہے کہ ایسی جماعت جو عدم تشدد کی علمبردار ہو، اور اسے ناکردہ گناہوںکی پاداش میں مصلوب کیا گیا ہو۔ وہ اگر میدان عمل میں آئی توجلسے والے روز ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت جمہوری آزادیوں کا پیہم ثبوت دیتے ہوئے اسے تمام سہولتیں فراہم کرتی۔ مگر جلسے کے شروعات عین چھ بجے انتظامیہ کے کارندے سینیٹر شاہی سید کو پیغام دیتے رہے کہ جلسہ منسوخ کردیا جائے وگرنہ جلسہ گاہ کے بالکل سامنے عمارت سے اسٹیج پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔یہ خوف ارزاں کرکے ایسے لگ رہا تھاکہ جیسےپی پی کو بھی اے این پی کی فعالیت قبول نہیں۔ یعنی جیسے بھٹو صاحب کے دورِ فسطائیت کی یاد تازہ کی جارہی تھی، جب ایک ہی صدا ’لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘ کے ماسوا دوسری کسی آواز کو نام نہاد عوامی حکومت کے ہرکارے سننے کے روادارہی نہ تھے۔ اسفند یار صاحب ہمیشہ پیپلز پارٹی کی تعریف کرتے ہیں اور برحق آصف زرداری کی ستائش بھی! لیکن بہ وجوہپیپلز پارٹی کی سندھ حکومت برُے وقتوں کی ساتھی اے این پی کی کراچی میں کھلے عام سرگرمیوں سے خائف نظر آرہی ہے۔ سینیٹر شاہی سید کا یہ کہنا بجا ہے کہ جلسے میں روڑے اٹکائے جانے پر بھلا میںاس سے زیادہ کیا تحمل کا مظاہرہ کرتا کہ پر جوش کارکنوںکو صبر کا درس دیتا لیکن پریس کانفرنس میں دنیا کو یہ بتا دیتا کہ ’’کہا جاتا ہے کہ کراچی میں امن ہے لیکن یہ کیسا امن ہے کہ جس میں دیگر تمام جماعتیں تو ’ رنگ رلیاں‘ مناتی ہیں، لیکن اے این پی کو اپنے کارکنوں و عوام سے بات تک نہیںکرنے دی جاتی!
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر انتظامیہ اس منصوبے سے آگاہ تھی کہ سبوتاژ یا دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوسکتا ہے تو قانون کے لمبے ہاتھ گردن سے کیوں بندھے رہ گئے؟ ایسے عناصر کو گرفتار کیوںنہیںکیا گیا یا پھر کراچی میں امن قائم کرنے والی اصل قوت کو کارروائی کے لیے اعتماد میںکیوںنہیں لیا گیا۔ خیر پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ کراچی میںیا تو بلوچ ان کے ساتھ تھے یا پھر ایسے پختون جو جلسہ گاہ کی ’’کرسیاں گننے ‘‘پر مامور تھے! بلوچ تو کب کے پیپلز پارٹی پرتبرا بھیج چکے جبکہ پختون بھی اب جئے بھٹو کی تھاپ پر دھمال ڈالنے سے رہے۔ کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ دھمال کا سارا کمال تو وڈیرے ہی لے اڑتے ہیں۔مختلف قومیتوں کی پی پی سے دوری کا یہی وہ خوف ہے جو پیپلز پارٹی کو دامن گیر ہے ۔ اب دیگر قومیتیں تو کیا خود سندھی بھی اس جماعت سے نالاں ہوچلے ہیں۔
ہماری جب اسفند یار ولی صاحب سے نشست ہوئی تو سندھ حکومت کے کردارکے حوالے سے ہمارے ایک سوال کے جواب میں وہ پیپلز پارٹی پر تنقید سے گریزاں رہے، بلکہ صوبے کو پختونخوا کا نام دئیے جانے سمیت 18ویں ترمیم وغیرہ کے حوالے سے وہ جناب آصف زرداری کی توصیف کرتے رہے۔ لیکن کارکنوں میںبہر صورت پیپلز پارٹی کی حکومت کے حالیہ طرز عمل پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔یوں تو پی پی اور اےاین پی میں کوئی باضابطہ اتحاد نہیں، لیکن دونوں کو حلیف سمجھا جاتا ہے۔صوبائی حکومت کی حالیہ ’احمقانہ زورآوری‘ کے بعدایسا لگتا ہے کہ رفاقت رقابت اور قربت دوریوںمیںبدل سکتی ہے ۔
خواہش تھی کہ جناب اسفند یار ولی سے ہونے والی گزشتہ روز کی گفتگو میںآپ کو شریک کیا جائے، لیکن سدِراہپیارے بلاول کی جماعت پیپلز پارٹی بن گئی۔ جن کے دور حکومت کے متعلق حبیب جالب نے کہا تھا۔
وہی حالات ہیںفقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروںکے
سازشیں ہیںوہی خلافِ عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوںننگے ہیں بے نظیروں کے
اے این پی کے سربراہ نے یوںتو جلسے میں مختلف قومی ایشوز پر کھل کر باتیں کی تھیں، لیکن اس پوری نشست میںوہ یہاںتک صبر کا دامن تھامے رہے کہ جب ہم نے عرض کیا کہ بعض سیاسی و مذہبی رہنما اورصحافی کل تک طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے ، یہاں تک کہ اُن کو اپنے بچے تک قرار دیتے رہے، ان کے ضامن بنے اور مذاکرات پر زور دیتے رہے ۔پھر جب کوئی ڈرون حملے میں مارا جاتا تو واویلامچ جاتا کہ یہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی امریکی سازش ہے۔ اب جب سے پاک فوج نے یہ لکیر کھینچ دی ہے کہ طالبان تو ’را‘ کے لئے کام کرتے تھے۔ تو کل تک ان کی حمایت کرنے والے مذہبی و سیاسی لیڈروں، صحافیوں و دانشوروںکو جیسے چپ کا روزہ لگ گیا ہو ۔ہم نے اےاین پی کے قائد سے سوال کیا کہ یا ان لیڈروں سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہئے کہ آپ’ را ‘کے ان ایجنٹوں کی کیوںحمایت کررہے تھے اور ڈرون حملوںمیں ان کی ہلاکتوںپر آپ کے بین و شور کی وجہ کیا تھی؟ اسفند یار ولی کے جواب میں حکمت تھی ۔ کہنے لگےاجتہادی غلطی تو خیر نہیں کہہ سکتے،ہاں ادراک کی کمی ہوسکتی ہے ، فتورِنیت کا مگر زیادہ امکان ہے، ایسے لوگ عوام کے سامنے ’بے پردہ‘ہوچکے ہیں، تاہم ہمیں ملک و عوام کی خاطر آگے دیکھنا چاہئے۔اسفندیار صاحب کا یہ کہنا صائب،کہ ہمیں آگے دیکھناچاہئے، مگرکھلے دماغ اور کھلی آنکھوں سے یہ بھی دیکھنا چاہئےکہ کہیں یہی عناصر پھر نیا ’اسائمنٹ لے کر تو نازل نہیں ہورہے!...



.