اِک تصویر کے سامنے آنے پر!

June 07, 2017

نجی ٹیلی وژن چینل کے پروگرام میں پاکستان کے معتدل ترین تجزیہ نگار جناب مجیب الرحمٰن شامی کی گفتگو کے ایک موضوع کا اختتامیہ اس مفہوم پر مشتمل تھا۔ ’’تفتیش بجا لیکن تفتیش کے نام پر تذلیل کا حق آپ کو کس نے دیا؟‘‘ موضوع تھا جوڈیشل اکیڈمی کی کرسی پر بیٹھے حسین نواز کی تصویر منظر عام پر آ جانے کا، آپ اسے ہدف بنائی گئی منتخب حکومت کے اجزائے ترکیبی میں سے ایک جز پر ان کی حتمی رائے بھی قرار دے سکتے ہیں، اب ہم تھوڑا سا پیچھے ہٹتے ہوئے پھر آگے بڑھیں گے!
تھوڑا سا پیچھے ہٹنے کا معاملہ 9مئی بروز منگل 2017ء تک محدود رکھا جائے گا۔ امکاناً زیر بحث تاریخ، کہانی یا معاملے کے لئے اتنی ہی مدت کافی و شافی ہے، یہ پندرہ دن آپ کو پاکستان کی دیکھی اور ان دیکھی قوتوں میں ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے پس منظر میں جاری جنگ کا پورا منظر ہی سامنے رکھ دیں گے، ہم اس منظر کے سارے رنگوں کی فنی تفصیلات کی کامیاب تشکیلات سے اس جاری جنگی تاریخ کی تمام مرمزیت کو اپنی آنکھوں میں سمو، دل میں اتار اور ذہن میں جما سکتے ہیں، نتیجتاً ہمیں شامی صاحب کے تجزیاتی حاصل یعنی ان کی گفتگو کے اختتامیہ کی مطلوبہ حساسیت سے بے ساختہ اتفاق کرنے میں کسی ذہنی ابہام سے واسطہ نہیں پڑے گا۔
مطلوبہ حساسیت کے اس بیانئے کے لئے ہی پندرہ دن پیچھے جانا پڑا ہے۔ چنانچہ یہ سفر شروع ہوتا ہے۔
9؍ مئی 2017ء کو پاکستانی عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کی زیر صدارت ایک طویل مشاورتی اجلاس ہوتا ہے، قومی پریس وزیراعظم سمیت شرکائے اجلاس کا ایک متفقہ اعلان شائع کرتا ہے جس کے مطابق ’’نیوز لیکس ٹویٹ پر حکومتی تحفظات، سویلین بالادستی پر سمجھوتہ نہیں ہو گا، رپورٹ کے تمام نکات پر عملدرآمد ہو گیا، نیا نوٹیفیکیشن ضروری نہیں، وزیراعظم نے جو کچھ بھی منظور کیا کافی ہے، ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے وزارتوں کو آگاہ کر دیا گیا ہے، آئی ایس پی آر کے ٹویٹ کو سنجیدگی سے لیا گیا، ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے پائیدار حل تلاش کیا جائے گا، معاملے سے احتیاط سے نمٹا جائے گا۔ وزیراعظم کا آفس آرڈر سمجھے بغیر آئی ایس پی آر نے غیر شائستہ جلد بازی میں ٹویٹ کیا جو ناقابل قبول ہے‘‘۔ مشاورتی اجلاس کا یہ بیانیہ، آئی ایس پی آر کے ٹویٹ کو ’’غیر شائستہ جلد بازی‘‘ کی واقعیت سے متشکل کرنا، حقیقتاً پاکستان کی قومی تاریخ میں موجود اس غیر آئینی قوت اور اس کے طرز فکر کو ہلکی ترین مقدار میں ایسی تنبیہ تھی جس کے تحت ’’مسترد کرنے‘‘ کا اسے اختیار نہیں، منتخب حکومت کو ہے، ملکی آئین کی رو سے تمام قومی ادارے جس کے احکامات کی تعمیل اور ماتحتی پر پابند ہیں!
آپ کو یہ یاد کرانے کی غالباً ضرورت نہیں ہونی چاہئے، مشاورتی اجلاس کا یہ ردعمل ڈان لیکس پر آئی ایس پی آر کے اس ٹویٹ کے جواب میں تھا جس میں منتخب وزیراعظم اور منتخب حکومت کے جاری کردہ فیصلے کے سلسلے میں "It Is Rejected"کا جملہ استعمال کیا گیا، ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کے پاسبان و محافظ پاکستانی عوام نے اس جملے کو پہلے لمحے ہی فیصلہ کن انداز میں مسترد کر دیا، اس انداز کی اجماعیت نے پاکستان کی قومی منتخب آئینی حکومت کی بلاواسطہ یا بالواسطہ حکم عدولی کو ناقابل قبول کی سند جاری کر دی!
9؍ مئی 2017ء سے آج 6؍ جون 2017 تک کے دورانئے میں منتخب وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے چار بار اور حسن نواز ایک بار پیش ہوئے ہیں، مخالفانہ تخمینوں کے سو فیصد برعکس حسین نواز چاروں بار قائم رہے، میڈیا سے مکالمہ کیا پاکستانی سیاست کی تاریخ کو سوالیہ نشان بنایا، رمضان کے باعث معمولی زندگی میں خصوصی مشقت در آنے کے باوجود اپنا توازن نہیں کھویا، پندرہ دن ہی کے اس دورانئے میں انصار عباسی کا نیوز اسکوپ جے آئی ٹی کی اخلاقی پوزیشن کو متنازع بنا گیا ہے، یہ صورت احوال آج کے دن تک ایسے ہی ہے، عباسی کے اس ’’نیوز اسکوپ‘‘ کی رو سے ’’چیئرمین سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان ظفر مجازی نے 28اپریل 2017ء کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار ارباب محمد عارف کو ایک خط تحریر کیا اور جس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا وہ واٹس اپ کال اور جے آئی ٹی تھا۔ خط سے یہ تفصیلات ملتی ہیں کہ کس طرح فون اپیلی کیشن استعمال کرتے ہوئے ایس ای سی پی کے چیئرمین کو پیغام پہنچایا گیا کہ ’’ہدایات یہ ہیں کہ بلال رسول کا نام نئے پینل میں شامل کیاجانا چاہئے‘‘۔ انصار عباسی کے اس ’’نیوز اسکوپ‘‘ کے اثرات جے آئی ٹی کے ’’عادل وجود‘‘ میں پیوست ہو گئے ہیں، چاہے کوئی بھی قانونی فورم جوبھی کہے شکوک کے سایوں کو کھرچ پھینکنا ناممکن ہو گا۔
انہی پندرہ دنوں میں نہال ہاشمی کی تقریر کا واقعہ پیش آگیا، وہ اپنا مقدمہ کس طرح پیش کرتے ہیں، عدالت عظمیٰ ان سے کیا سلوک روا رکھی ہے، اس پر کوئی تبصرہ قانوناً نہیں ہو سکتا البتہ اس کیس کی سماعت کے دوران میں ایک فاضل جج صاحب کی جانب سے حکومت پاکستان کو ’’سسلی مافیا‘‘ قرار دینے سے سماعت کے اصول ملکی سلامتی کے تقاضوں پر حاوی نہ ہو سکے، حکومت پاکستان کے ترجمان نے اس پر اپنے حکومتی موقف کا اظہار کر دیا، عدالت عظمیٰ کے ریمارکس کو منتخب حکومت کی قومی اور بین الاقوامی حیثیت کو متاثر کرنے سے تعبیر کیا۔ کہانی اس طرح آگے بڑھی تاآنکہ جوڈیشل فیڈرل اکیڈمی میں بیٹھے حسین نواز کی تصویر وائرل ہو گئی، اب آپ ان پندرہ دنوں کے اس سارے قصے کے تمام مراحل کو ذہن میں لا کر جناب شامی صاحب کے اس اختتامی جملے پر غور فرمائیں، ’’تفتیش بجا مگر تفتیش کے نام پر آپ کو تذلیل کرنے کا حق کس نے دیا؟‘‘
اب ان گزرے پندرہ دنوں سے آگے بڑھتے ہیں۔ بڑا واقعہ قطری شہزادے کے خط کا جے آئی ٹی کو وصول ہو جانا ہے، خط کی وصولی سے ان مخالفانہ قیاس آرائیوں کی تدفین ہوئی جو سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی کا درجہ دیئے ہوئے تھیں وصول شدہ خط میں قطری شہزادے نے کہا ’’وہ خط میں بھیجے گئے اپنے متن پر قائم ہیں۔ وہ خط اور دستخط کی تصدیق کے بعد جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ جے آئی ٹی میں پیش ہونے والے افراد کی تصاویر اور معلومات سوشل میڈیا پر لیک ہو رہی ہیں۔ شفافیت مشکوک بنا دی گئی۔ خفیہ بیان ریکارڈ کرانا ممکن نہیں‘‘
گویا پاناما کیس کے غار سے ابھرنے والی تاریکیاں یا روشنیاں کسی ایک حالت پر قیام کی کوئی یقینی علامت نہیں، جیسے 5,4؍ اپریل 2016کی صبح پاناما کی خبروں نے پاکستانی پریس کو لپیٹ میں لے لیا تھا مگر صرف چند دنوں ہی میں ایک برادر کالم نگار نے متنبہ کر دیا ’’خبردار! ٹارگٹ منتخب وزیراعظم ہے‘‘ اسی طرح اس کیس کی تاریکیوں اور روشنیوں کے غیر یقینی پن کے باعث ہی وہی کالم نگار ہمیں یاد دلا رہے ہیں۔ ’’ریاست کے دائمی اداروں کے تابڑ توڑ حملوں سے پریشان ہوئے شریف خاندان کو مگر دیوار پر لکھا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ جنرل مشرف پر ’’بغاوت‘‘ اور ’’غداری‘‘ کے الزامات لگا کر مقدمہ چلانے کی کوشش کا نتیجہ اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا جو ان دنوں ہوتا نظر آ رہا ہے‘‘۔ یہاں پر پھر شامی صاحب کے جملے کو ذہن میں لائیں ’’تفتیش بجا مگر تذلیل کا حق آپ کو کس نے دیا؟‘‘ آپ کو ان کے ذہنی افق کا ادراک ہو سکتا ہے یعنی مسئلہ حسین نواز نہیں پاکستان کے آئینی سیاسی سفر کی متوقع مضبوطی کو کمزور کرنا اور کسی نہ کسی طرح توڑنا، بکھیرنا اور معدوم کرنا ہے!
بی بی شہید کے صاحبزادے بلاول بھٹو، کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں، جے آئی کے سامنے حسین نواز کی پیشیوں اور فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے در و دیوار سے باہر آنے والی تصویر جیسے واقعات پر کہا ’’تھوڑی سی تکلیف سے نواز فیملی کی چیخیں نکل گئی ہیں، بلاول کو کچھ یاد کرانا ناگزیر ہو گیا ہے، بی بی شہید، جو آپ کی قابل فخر والدہ محترمہ ہوتی ہیں، چند سال قبل ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا سندیسہ لے کر جب نواز شریف کے پاس گئی تھیں، تب انہیں آپ سے زیادہ اپنے مصائب یاد تھے، مگر وہ گئیں، کیوں؟ پاکستان کے لئے، پاکستانی عوام کے لئے، نواز شریف سے کہا ’’آئو، میں بھولتی ہوں، میں برداشت کرتی ہوں، میں اپنے زخم سینے لگی ہوں، ساتھ چلو وطن کی دھرتی ہمیں بلا رہی ہے،‘‘ تو میاں! عظمت در گزر میں ہے، اور آپ کی والدہ کو تو عالمی برادری نے برداشت کا عالمی ایوارڈ پیش کیا، اس ایوارڈ کی عزت ان کی ذات سے ہوئی، آپ اس کے فرزند ہو جس نے ضیاء کی موت پر کہا تھا ’’میں اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتی ہوں‘‘، جب آپ کو ملک کے آئین اور آئینی سفر سے کھلواڑ کا اندازہ ہو تو وقت آپ کی سیاست وراثت اسی سپریم کورٹ کو مخاطب کر کے کہتی ہے ’’مجھے آپ پر مکمل اعتماد ہے می لارڈ!‘‘ اور پھر اسی کے فیصلے پر تختہ دار کو سرفراز کر دیتی ہے!‘‘ گفتگو جاری رہے گی!