تصویر کی گواہی اور تاریخ کی جے آئی ٹی

June 08, 2017

گرمی بہت زیادہ تھی۔ خیر گزری کہ ہوا بالکل بند نہیں تھی۔ گاہے ہوا کا کوئی بھٹکا ہوا جھونکا موسم کی حدت کو قابل قبول بنا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آئین میں حبس اور زباں بندی کی دادرسی کے لئے آرٹیکل 19 کی کھڑکی رکھی گئی ہے۔ تسلیم کہ اس کھڑکی سے اکثر لو کے تھپیڑے ہی چہروں کو جھلساتے رہے لیکن قانون کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ حبس سے لو اور حبس بے جا سے عدالتی گرفتاری بہتر ہے۔ وسیع احاطے میں انصاف مانگنے والوں کا مانوس ہجوم تھا، ایک ماں جو روٹی پر سبزی اور گھی کا لوندا میلے دوپٹے میں باندھ کر لائی ہے۔ ایک دور پار کا رشتے دار سستے سگریٹ کی ڈبیا لایا ہے۔ بوڑھا باپ اکڑوں بیٹھا وکیل کے منشی کی راہ دیکھ رہا ہے۔ ایک بیٹی ہے جو اس طرح ہتھکڑی لگے باپ کو دیکھتی ہے جیسے چند ہفتے قبل مومن خان مومن کی بیٹی کراچی کی عدالت کے باہر بنچ پر بیٹھی تھی۔ ہجوم سے کچھ فاصلے پر عارضی سائبان تلے وکیلوں کے لئے کچھ کرسیاں رکھی تھیں۔ کمال اتفاق تھا کہ اس جم غفیر میں نظر دو ٹکریوں پر ٹک گئی۔ ایک میز پر بروہی صاحب، اعجاز بٹالوی اور شریف الدین پیرزادہ تشریف فرما تھے۔ قریب ہی ایک میز پر سہروردی صاحب، یحییٰ بختیار، میاں محمود قصوری اور سید اقبال حیدر متمکن تھے۔ سید اقبال حیدر سے ذاتی نیاز مندی رہی تھی۔ اسی رعایت سے اشارہ کر کے بلایا اور شفقت سے پوچھا، دستاویزات مکمل ہیں ناں؟ سید صاحب دستاویز تو کوئی ہے نہیں۔ 1973 کا دستور تھا، اسی کی بالادستی پر نزاع ہے۔ مقدمہ قانونی نہیں، سیاسی ہے۔ نکتہ نزاع ایک استغاثہ نہیں، تاریخ کی روایت ہے۔ اصول قانون، نظائر، دستاویز تو تب بروئے کار آئیں اگر عدالت، مقننہ اور انتظامیہ میں طے شدہ آئینی حدود کی پابندی ہو رہی ہو۔ یہاں تو صحافی وکیل ہے، عدالت کا اہلکار منصف کا درجہ غصب کئے بیٹھا ہے۔ پیش کار عدالتی ضابطہ مرتب کر رہا ہے، منتخب قیادت کٹہرے میں کھڑی ہے۔ نادیدہ ہاتھ مکالمے لکھ رہا ہے۔ میں ایک البم اٹھا لایا ہوں۔ سات دہائیوں کی تاریخ سے چھانٹ کر پندرہ بیس تصاویر نکالی ہیں۔ جو چپ رہے گی زبان خنجر… اگر یہ تصویریں بھی ظلم بیان نہیں کرتیں تو لارڈ سالسبری، گلیڈ اسٹون اور پیٹرک ہنری بھی ہمارا مقدمہ نہیں جیت سکتے۔
میاں قصور ی کسی قدر غنودگی میں تھے۔ یحییٰ بختیار بے اعتنائی سے اپنا پائپ صاف کرتے رہے۔ تصاویر کا ذکر سن کر البتہ سہروردی میں دلچسپی کے آثار پیدا ہوئے۔ میں نے چرمی جلد والی بوسیدہ البم میز پر رکھ دی۔ سید اقبال حیدر ورق پر ورق الٹتے رہے۔ یہ بارہ اگست 1948 ء بابڑہ (چارسدہ )فائرنگ کا واقعہ ہے۔قیوم خان کے حکم پر سینکڑوں خدائی خدمت گار مارے گئے تھے۔ یہ 21فروری 1952ء ڈھاکہ یونیورسٹی کی تصویر ہے۔ ضلعی پولیس آفیسر مسعود محمود کے حکم پر بنگالی زبان کا حق مانگنے والے طالب علم مارے گئے تھے۔ یہ جولائی 1960 ء کی تصویر ہے۔ نواب میر نوروز خان زرک زائی پھانسی پانے والے چھ بیٹوں کی لاشیں وصول کر رہے تھے۔ یہ مئی 1954 ء کی تصویر ہے۔ محمد علی بوگرہ کی وزارت میں ایک وردی پوش وزیر دفاع نظر آرہا ہے۔ یہ اپریل 1959 ء کی تصویر ہے۔ وردی پوش جوانوں نے پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار پر قبضہ کر کے صحافت میں نیا ورق الٹ دیا تھا۔ اس نئے ورق پر سچے لفظ کو کبھی جگہ نہیں مل سکی۔ یہ 2فروری 1965 ء کے اخبار کی شہ سرخی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کر دیا۔ یہ میرپور ڈھاکہ کے برساتی تالاب سے ملنے والی دانشوروں کی وہ لاشیں ہیں جنہیں 14دسمبر 1971ء کو قتل کیا گیا۔یہ 16 دسمبر 1971 ء کو سقوط ڈھاکہ کی دستاویز پر دستخط کی تصویر ہے۔ یہ اسلامیہ کالج سول لائنز کے باہر ان طالب علموں پر تشدد کی تصویر ہے جنہیں گورنر مصطفیٰ کھر کے حکم پر سربازار بے لباس کر دیا گیا تھا۔یہ لیاقت باغ راولپنڈی 23مارچ 1973 ء کی تصویر ہے۔ عبدالولی خان یہ لاشیں رات کے اندھیرے میں واپس لے کر گئے تھے تاکہ اشتعال پیدا نہ ہو۔ اب ولی خان کے نام پر بننے والی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کو سازش کے تحت قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے قتل کیا گیا ہے اور ایک جاہ پسند شخص کہتا ہے کہ اس حادثے کے باوجود قانون پر نظرثانی نہیں ہو گی۔ یہ 1974 ء کی وہ تصویریں ہیں جن میں جنگی قیدی کا لباس پہنے وطن واپس پہنچنے والے واہگہ بارڈر پر سجدہ شکر ادا کر رہے ہیں۔ جنوری 1978 ء کی یہ تصویر قذافی اسٹیڈیم کے باہر بیگم بھٹو کے سر پر پڑنے والی لاٹھیوں کی ہے۔ ماتھے سے بہتی لہو کی دھاریں وفاق میں ایک نئے دریا کا نقشہ دکھا رہی ہیں۔ یہ بھٹو کے نام پر جل مرنے والے یعقوب مسیح کی تصویر ہے۔ بان کی چارپائی پر چارخانہ کھیس کے نیچے نظر آنے والے دو پائوں ذوالفقار علی بھٹو کے ہیں۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا لاشہ نہیں، عوام کے حق حکمرانی کی تدفین تھی۔ یہ نذیر عباسی سلاخوں کے پیچھے موت کے انتظار میں ہے۔ یہ حمید بلوچ ہے جس کی پھانسی پر عمل درآمد کی عجلت نے عبوری آئینی حکم مارچ 1981 ء جاری کیا تھا۔ یہ فوجی عدالت کی وہ تصویر ہے جہاںبے نظیر بھٹو جام ساقی اور ان کے ساتھیوں کے حق میں گواہی دینے آئی تھیں۔ یہ صحافیوں کو کوڑے لگائے جانے کی تصویر ہے۔ یہ 1983 ء ہے۔ ٹھیڑی پھاٹک کے درورازے بند کر کے جمہوریت مانگنے والوں پر فائرنگ کی گئی۔ یہ سکھر جیل ہے جہاں رات گئے بینظیر بھٹو کو نظربندی کے لئے لایا جا رہا ہے۔ یہ کراچی جیل کے باہر بینظیر بھٹو کی تصویر ہے جو تین کم عمر بچوں کو اپنے باپ سے ملوانے جیل لائی ہے۔ اس شخص کی تشدد سے کٹی ہوئی زبان کی تصویریں چند ہفتے قبل اخبارات میں نمودار ہوئیں۔ یہ کراچی کے مڈ ایسٹ اسپتال میں مرتضیٰ بھٹو کی لاش ہے۔ یہ تصویریں ان بوریوں کی ہیں جن میں تشدد زدہ لاشیں بیس برس تک مسلسل ملتی رہیں۔ یہ ان بچوں کی تصویر ہے جنہیں 1995 ء میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر ٹرکوں میں لے جایا گیا۔ ان میں سے ان گنت کبھی واپس نہیں لوٹے۔ یہ 1999ء اکتوبر 12کی رات اسلام آباد ٹیلی وژن کا پھاٹک پھلانگنے والوں کی تصویر ہے۔ یہ ان دھماکوں کی تصویریں ہیں جو پشاور سے کراچی تک ہر شہر اور قصبے میں اس تواتر سے ہوتے رہے کہ مرنے والوں کی تعداد ستر ہزار تک جا پہنچی۔ ہم ابھی تک دہشت گردی، جہاد، تکفیر اور ارتداد کے قانونی مفاہیم طے نہیں کر سکے۔ یہ ہزارہ کمیونٹی کے ان شہیدوں کے تابوت ہیں جنہیں فروری 2013ء میں کئی روز تک سخت سردی میں سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا گیا۔ اکتوبر 2012کی اس تصویر میں ملالہ یوسف زئی کوا سٹریچر پر ڈال کر فوجی ہیلی کاپٹر کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ بیگم مسرت عالم زیب فرماتی ہیں کہ اسے کبھی گولی لگی ہی نہیں تھی۔ یہ مینگورہ کے گرین چوک میں لٹکتی لاشوں کی تصویریں ہیں۔ یہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنے کی تصویریں ہیں۔ یہ 10ستمبر 2007ء کو اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر نواز شریف کو دھکے مارنے کی تصویر ہے۔ یہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تصاویر ہیں۔ یہ ڈی چوک دھرنے اور پی ٹی وی پر حملے کی تصاویر ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ یہ البم مکمل ہونے میں نہیں آ رہی۔ ستر برس سے ایک ہی عرض داشت ہے اور ایک ہی فیصلے کا انتظار ہے۔ آپ کو فلورین ہینکل (Florian Henckel) کی فلم The Lives of Others 2006) )کا ابتدائی منظر تو یاد ہو گا۔اب اسی کرسی پر اسی کیمرہ فریم میں ایک زیر تفتیش نوجوان کی تصویر بھی سامنے آ گئی ہے۔ صرف یہ استدعا کرنے عدالت میں حاضر ہوا ہوں کہ اس تصویر کو بھی البم کا حصہ بنا لیا جائے۔ تاریخ کی جے آئی ٹی میں اس کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔