کیا یہ بچے پاکستانی نہیں

June 18, 2017

تھوڑی بینائی رکھنے والے کو بھی نظرآرہا ہے کہ پاکستان کی غالب اکثریت غربت کے اژدھے کے خوفناک جبڑوں میںبے بس پڑی کراہ رہی ہے۔ لیکن مختلف مناصب پر فائز اختیار مند دیگر مشغلوں میں ایسے منہمک ہیں کہ انہیں یہ نظرہینہیںآرہا ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی غربت کی گرفت میں لاچار ہوچکا ہے ۔صد حیف! 18کروڑ کی آبادی میں سے 5کروڑ ستاسی لاکھ افراد غربت کی سطحکے نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن اختیار مندوںکو اپنے دھندوں سے فرصت ہی نہیںہے کہ اختیار کا کچھ حصہ ان مسکینوں پر ایسے صدقہ کردیں کہ یہ کم از کم دو وقت کی روٹی کے لئےاپنے جگر گوشوں سےتو غافل نہ ہوجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج سڑکوں، میدانوںو بیابانوں میں آپ اپنی روزی کی تلاش کیلئے لاکھوں بچے سرگرداں ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ پاکستان چائلڈ لیبر کی عالمی درجہ بندی میں 7ویںنمبر ہے۔ پوری دنیا میں اس حوالے سے ہم صرف ایریٹریا، صومالیہ، کانگو، میانمار، سوڈان اور افغانستان سے بہتر ہیں۔ وہ یوں کہ یہ ممالک اول سے چھٹی پوزیشن پر فائز ہیں اور ہمارا درجہ ماشااللہ ساتواں ہے!
ستم بالا ستم یہ کہ جہاںہر تیسرا پاکستانی غربت کے خونخوار پنجوں میں آچکا ہے، وہاںہر تیسرا پاکستانی بچہ چائلڈ لیبر کا شکار بنا مملکت خداداد پاکستان کے اختیار مندوںکے اختیار کا تماشا بنا ہوا ہے۔
بھوک چہروںپر لئے چاند سےپیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیںگلیوں میں غبارے بچے
مال و دولت پر سانپ بنے بیٹھے غاصبوں کے ضمیر کی آنکھ میںروشنی کی رمق بھی ہوتی ، تو پیٹ کھولے اُن کی زبان یوںدراز نہ ہوتی کہ لائو اور لائو اور لائو....سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو ٹوک اعلان ہے کہ ایسے ہوس پرستوں کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی ہی سے بھرے گا.....نہ جانے اس اسلامی جمہوریہ میںمولوی ، سیاستدان، دانشور اور صحافیوں کا موضوع غربت کیوں نہیںبن پاتا؟ کیوںان اصحاب الرائے نے دوسری اکثریت یعنی متوسط طبقے کو ایسے نان ایشوز میںالجھا رکھا ہے کہ انہیںاحساس ہی نہیںہے کہ اژدھے انہیںبھی نگل لینے کیلئے تیار ہیں۔ یہی اس ملک کا سب سے بڑامخمصہ ہے کہ یہاںکوشش ہی بس یہی روا ہے کہ کسی طرح عام آدمی، جو تبدیلی کا اصل عامل ہے کو اپنے آپ سے بیگانہ کردیا جائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی 60فیصد آبادی یومیہ صرف دو سو روپے ہی کما پاتی ہے۔ اب دو سو روپے کمانے والے اپنے بچوں پر کس طرحتوجہ دے سکیں گے ،یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر تیسرا بچہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے وقت سے پہلے جوان بلکہ بوڑھا ہوچکا ہے، حالانکہ یہی تو وہ عمر ہے جو عمر کے ہر حصے میں یاد آتی ہے اور بار بارہنساتی اور رُلاتی ہے۔
اُڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
آہ! بچوںکو بچپن سے محروم کرنے والے پاکستان کے وسائل پر قابض ان چند ہزار غاصبوں کے احتساب کا نمبر نہ جانے کب آئے گا؟ایک احتساب تو مملکت خداداد میں کب کا شروع ہوچکا ہے لیکن کیا کسی ایک بھی ہوش مند پاکستانی کو یہ یقین ہے کہ اس احتساب کے ذریعے غاصبو ں سے وہ سب کچھ واپس لیا جائے گاجو ملک کے 18تا20کروڑ عوام کا حق ہے اور جسے یہ استحصالی عناصر ہڑپ کرچکے ہیں ۔کوئی ایک ذی شعور بھی نہیں کہہ سکتا کہ ایسے کسی احتساب سے قومی خزانے میں ایک آنہ بھی جمع ہوسکے گا۔ آپ ملاحظہ فرمائیںحکومت اورلے پالک اپوزیشن میں کیا تماشا بپا ہے۔جیسا کہ کہا گیا کہ یہی اس قوم کا اصل مسئلہ ہے کہ اِسے تماشوں میں لگاکر اصل ہدف سے مزید دور کردیا جاتا ہے۔اور یہی اختیارمندوں کا اصل ہدف ہے۔وزیراعظم نوازشریف کی جے آئی ٹی میں پیشی پرمقابل ہر دو رنگ رنگ لشکارے لائے ، لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ کل کو اگر بالفرض میاں صاحب اقتدار سے محروم بھی کردئیے جاتے ہیں تو اس کا عوام کی صحت پر کتنا اثر پڑیگا، نیز قومی خزانےمیں کتنا مال مسروقہ آجمع ہوپائیگا! اور غربت میں کتنی کمی آجائیگی؟ کیا یوسف رضاگیلانی کی سبکدوشی پر ایسا کچھ قوم کے ہاتھ آیا تھا؟دھمال پر رقصاں سب جانتے ہیں کہ ایسا کوئی معجزہ رونما ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر پھر بھی اگر مست ہیں تو اس خاطر کہ اس سےان کا کھیل جو آسان ہوجائیگا۔ کاش ! کوئی ایسے تمام خائنوں کا احتساب کرسکے جنھوں نے ملک کو دولخت کیا اور یا جو پاکستان میں غربت اور چائلڈ لیبر کے ذمہ دارہیں۔ لیکن ایسا احتساب آخر کرے گا کون؟پشتو کا ایک مقبول ٹپہ ہے کہ جب چھوٹا بھی چور ہو اور بڑا بھی چور ہو، یعنی جس دیس میں ہر صاحبِ اختیار چور ہو ،تو پھر چور کا احتساب کون کرے گا؟.... مقام عبرت ہے کہ اسلام کے مقدس نام پر وجود میں آنے والےاس ملکسے بچوںکو جبری مشقت اور جنسی سرگرمیوں کیلئے اسمگل کیا جاتا ہے۔ورلڈ ٹریفکنگ رپورٹ 2016میںپاکستان کو بچوںکی جبری مشقت اور جنسی سرگرمیوں کیلئے اسمگل کرنے کے حوالے سے اہم ملک قرار دیا گیا ہے۔ جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل کے مطابق عالمی چائلڈ لیبر میں31فیصد کمی واقع ہوئی ہے لیکن پاکستان میںچائلڈ لیبر میںاضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میںغربت اور نامناسب معاشی حالات کے باعث بچوںکو چائلڈ لیبر کا حصہ بننا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسکول جانے سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوںکی تعداد بڑھ رہی ہے جس کا اندازہ یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016ءکے اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے کل 26کروڑ 30لاکھ اسکول جانے سے محروم بچوں کا 9فیصد یعنی 2کروڑ 40لاکھ کا تعلق پاکستان سے ہے اور ایسے اسکول جانے سے محروم بچوں کی اکثریت چائلڈ لیبر کا حصہ ہے۔ حب الوطنی کی دستار پہنے اصحاب کیا بتانا پسندفرمائیں گے کہ کیا یہ معصوم بچے پاکستانی نہیں ہیں؟ملک میں چائلڈ لیبر کا 76فیصد حصہ زراعت سے وابستہ ہے ۔ یہ بچے جاگیر داروںکیلئے بطور چارہ استعمال ہورہےہیں۔ مقام افسوس ہے کہ چند مراعات یافتہ خاندانوں نے پاکستان کو اپنی مٹھی میں ایسا بند کرلیا ہے کہ غریب کے ساتھ ان کے بچے بھی ان کی غلامی اختیار کئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔یہ درست ہے کہ یہ ملک بے شمار قربانیوں کے بعد معرضوجود میں آیا ہے۔ اس کی بنیادوںمیں فرنگی سامراج سے لڑنے والے ہزاروں شہدا کا خون شامل ہے۔ یہ ملک راتوںرات اقوام عالم کے نقشہ پر مشہود نہیںہوا ، نہ ہی گھر لیٹے لیٹے فرنگی جیسی طاقت سے آزادی کا تصور بھی کیا جاسکتا تھا۔ حریت پسندوں نے جبرو زندانوں کی تکلیفوں کو برداشت کیا تب جاکر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ لیکن جیسا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ میری جیب میںکھوٹے سکے ہیں چنانچہ ایسے ہی کھوٹے سکوں نے وطن عزیز کی غالب اکثریت کی قسمت بھی کھوٹی کردی ہے۔ ہم لاکھ بناوٹی ناز و نخرے دکھائیں لیکن برسر زمین حقائق وہی ہیںجن کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ لاریب! مقام شکر ہے کہ ہم نے آزادی جیسی عظیم نعمت پالی ہے لیکن کیا یہ مقامِ افسوس نہیںکہ آزادی کے ثمرات سے صرف وہ مستفید ہورہے ہیں تحریک آزادی میں جن کے آبائو اجداد کا ناخن تک بھی کام نہ آیا تھا۔ خالص پر ملاوٹ کے غلبے کے اثر ہی کے باعث تو آج کہنا پڑتا ہے۔
نمود صبح سے شب کی وہ تیرگی تو گئی
یہ اور بات کہ سورج میںروشنی کم ہے

.