آج جو کچھ ہو رہا ہے ، کہیں وہ ۔۔۔ ؟

June 25, 2017

سینئر سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی نے اگلے روز ملتان میں پریس کانفرنس میں جو باتیں کی ہیں ، وہ سبق آموز ہیں ۔ ان باتوں کو ایک ایسے سیاست دان کا موقف قرار نہیں دیا جا سکتا ، جس کی اپنی قیادت کے مطابق سیاسی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہے کیونکہ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنے اصولوں کی وجہ سے اپنی یہ راہ خود متعین کی ہے ۔ ان کی باتوں میں نہ پچھتاوا ہے ، نہ غصہ ہے اور نہ ہی دوسروں کے بارے میں ان کی رائے میں ذاتی مخاصمت نظر آتی ہے ۔ ان کی حالیہ پریس کانفرنس میں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کا اس طرح ادراک کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، جس طرح ہم ماضی کے واقعات کا بعد میں ادراک کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں اور مغالطوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔
پاکستان کا ہمیشہ سے اور اس وقت اصل مسئلہ کیا ہے ؟ مخدوم جاوید ہاشمی نے اس کی نشاندہی کی ہے ۔ اپنی پریس کانفرنس میں ان کا کہنا یہ ہے کہ ماضی میں ریاستی اداروں نے غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا اور سول نظام میں مداخلت کا خمیازہ پوری قوم نے بھگتا ہے ۔ انہوں نے محتاط انداز میں یہ باور کرایا ہے کہ آج بھی کہیں ایسا تو نہیں ہو رہا ۔ انہوں نے ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا ریکارڈ بھی قابل تحسین نہیں رہا ۔ ججوں نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا ۔ عدالتوں نے اس نظریہ ضرورت کے تحت ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسے آمروں کو تحفظ فراہم کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے سپریم کورٹ کے بنچ کے رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے اعتراف کیا تھا کہ ان پر دباؤ ہے ۔ جنرل ضیا الحق نے برملا کہا تھا کہ اگر ججز باز نہ آئے تو وہ اپنی ملٹری کورٹس لگائیں گے اور بھٹو کو ہر قیمت پر پھانسی دیں گے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ ہمارے اداروں اور بیورو کریسی نے بہت ناانصافیاں کی ہیں ۔ میں نے جنرل شجاع پاشا کو کہا تھا کہ آئی ایس آئی پاکستان کا حفاظتی قلعہ ہے ، جس پر انہوں نے مجھے سلیوٹ کیا لیکن مخدوم جاوید ہاشمی کے بقول جو غلطیاں سول نظام میں مداخلت سے ہوئی ہیں ، ان کا خمیازہ پوری قوم نے بھگتا ہے ۔
ماضی کے حوالے سے مخدوم جاوید ہاشمی نے جو باتیں کی ہیں ، ان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ ان باتوں کی تائید ریٹائرڈ ججز اور جرنیل بھی کرتے ہیں اور وہ جرنلسٹ بھی کرتے ہیں ، جو ماضی میں نان سویلین اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ رائج کرنے کے لئے اپنا قلم استعمال کرتے تھے ۔ ماضی کے تناظر میں موجودہ صورت حال کے حوالے سے بھی مخدوم جاوید ہاشمی نے کچھ باتوں کی نشاندہی کی ہے ۔ ایک تو انہوں نے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی پارلیمان اور پارلیمانی نظام کے تحفظ کے لئے اختیار کی کیونکہ مخدوم جاوید ہاشمی کے بقول تحریک انصاف کی قیادت جو کچھ کررہی تھی ، وہ پارلیمانی اور پارلیمانی نظام کے خلاف تھا اور وہ اس کا حصہ نہیں بن سکتے تھے ۔ عمران خان جس احتساب کی بات کررہے ہیں ، اس سے پارلیمان کو بے توقیر کیا جارہا ہے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان کے دھرنوں کے حوالے سے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور کچھ سیاسی رہنماؤں سے تحقیقات کی جائیں ۔ اس امر کی بھی انکوائری ہونی چاہئے کہ اس وقت لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام بار بار کیا پیغام دے رہے تھے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے عمران خان کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا ، جس میں بقول ان کے عمران خان نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق جیلانی کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اچھے آدمی نہیں ہیں ۔ ان کے بعد جو آئے گا ، وہ ٹھیک ہے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے محتاط انداز میں ان باتوں کی نشاندہی کی ہے اور ان کے تناظر میں کہا ہے کہ کسی کے کہنے پر نواز شریف کو نااہل کرنا ہٹانے کا طریقہ تو ہو سکتا ہے ، احتساب کا نہیں ۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے خیال میں پاناما کیس کی مزید تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی متنازع ہو چکی ہے ۔ ان کے بقول اس جے آئی ٹی کے ذریعے انتقام تو لے لیا جائے گا لیکن احتساب نہیں ہو گا اور نواز شریف کو سزا بھی نہیں ہو گی اور وہ الٹا مظلوم بن جائیں گے ۔
یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ مخدوم جاوید ہاشمی موجودہ صورت حال میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حق میں دلائل دے کر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں دوبارہ اپنے لئے جگہ بنانا چاہتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی جب چاہتے ، مسلم لیگ (ن) میں دوبارہ شمولیت اختیار کر سکتے تھے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ان کی باعزت واپسی سے کبھی انکار نہیں کرتے ۔ اس کے مختلف اسباب ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب مخدوم جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ (ن) میں دوبارہ شمولیت کا وقت نہیں ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف دور میں ان کے اور ان کے خاندان کے تمام افراد کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے اور ان کے 78 سالہ بھائی آج بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔ نواز شریف کو اپنے بیٹے حسن نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کا درد ہے لیکن ان کے 78 سالہ بھائی کا احساس نہیں ہے ۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہو گا کہ مخدوم جاوید ہاشمی احتساب کے خلاف ہیں کیونکہ انہوں نے خود مطالبہ کیا ہے کہ چین اور دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کرپشن اور ٹیکس چوری میں ملوث افراد کو سزائے موت دی جانی چاہئے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے صرف یہ متنبہ کیا ہے کہ کہیں ماضی کی طرح تو نہیں ہو رہا ۔
یہ بات درست ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے۔ وزیر اعظم سمیت سب کا احتساب ہونا چاہئے ۔ آج کل یہ بیانیہ چل رہا ہے کہ اگر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کو مبینہ طور پر ناجائز اثاثے بنانے پر سزا ہو جاتی ہے
تو پاکستان میں ہر مسئلہ حل ہوجائے گا اور پاکستان میں حقیقی احتساب شروع ہوجائے گا لیکن اس پر زور نہیں دیا جا رہا کہ احتساب ہونا چاہئے لیکن احتساب کے عمل میں کسی کی مداخلت نہ ہو اور وہ کسی کی خواہش پر بھی نہ ہو ۔ ادارے غیر جانبداری سے کام کریں کیونکہ وزیر اعظم کا احتساب ایک مثال ضرور قائم کرے گا لیکن اگر اس احتساب میں انصاف اور قانون کے تقاضوں سے بالاتر ہو کر کوئی فیصلہ ہوا تو اس کے خطرناک اثرات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے ۔ کیا میڈیا میں نواز شریف کا حامی بیانیہ غالب ہے یا ان کے مخالفین کا بیانیہ رائج ہے ؟ یہ بھی ایک سوال ہے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے اس انتباہ کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے ، کہیں ماضی کو تو نہیں دہرایا جا رہا ۔