ٹونٹی……

June 29, 2017

میرے دوست ڈوڈو کے ہاتھ میں سونے کا لوٹا تھا۔
’’واہ، بہت خوب صورت۔‘‘
میں نے تعریف کی۔
’’ہاں، ہے تو سہی۔‘‘
ڈوڈو مسکرایا اور لوٹا سنبھال کر چل پڑا۔
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘
میں نے پوچھا۔
’’غسل خانے، اور کہاں!‘‘
ڈوڈو نے بتایا۔
’’غضب خدا کا!‘‘
میں چلا اٹھا،
’’بائولے انسان! غسل خانے کیوں لے جا رہے ہو؟
ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھو۔
یہ منفرد لوٹا ہے۔
یہ قیمتی لوٹا ہے۔
یہ سونے کا لوٹا ہے۔‘‘
ڈوڈو نے حیرت سے مجھے دیکھا،
پھر منہ بنا کر کہا،
’’بے شک سونے کا ہے،
لیکن ہے تو لوٹا ہی نا!‘‘