ٹیکنالوجی او ر ملکی ترقی

July 10, 2017

28 مئی اور 30 مئی 1998ءکو پاکستان نے کئی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا۔ کسی کو یہ اُمید نہ تھی کہ ایک پسماندہ ملک ایک اتنی اعلیٰ ٹیکنالوجی کے ذریعہ ایٹمی قوّت بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میری اعلیٰ تعلیم، تجربہ اور میرے رفقائے کار کےجذبہ خدمت نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ میں نے ایک مرتبہ ایک کالم میں لکھا تھا کہ میرا اور میرے ساتھیوں کا وہی جذبہ تھا جو پاکستان بنانے والوں کا تھا۔ ان کو جنون تھا کہ ہم پاکستان لے کر رہیں گے اور ہمیں جنون تھا کہ ہم پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دشمنوں کے جارحانہ اقدامات کا خاتمہ کردینگے۔ اللہ رب العزّت نے ہماری محنت اور نیت کا انعام دیا اور ہم بہت ہی کم عرصے میں ایک ایٹمی قوت بن گئے مگر یہ کام اتنا آسان نہ تھا ہم نے دنیا کی اہم ترین اور نہایت مہنگی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کیا تھا، ہم نے ہندوستان اور مغربی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوّت بن گئے تھے۔
جدید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ نہ صرف ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا بلکہ وقت اور رَقوم کی کفایت سے سب کو حیران کردیا تھا۔ یہ پروگرام جولائی 1976 میں شروع ہوا تھا۔ پچھلے سات ماہ اٹامک کمیشن کے ساتھ کام کرنے (بلکہ نا کرنے) میں ضائع ہوگئے تھے۔ جناب بھٹو بہت ہی دور اندیش، عقلمند اور محب وطن لیڈر تھے اُنھوں نے وقت کی نزاکت کو دیکھ کر مجھ پر اعتماد کرکے حقیقی معنوں میں پاکستان کو بچانے کی بنیاد ڈال دی تھی۔بھٹو صاحب نے مجھے ایک نئے ادارہ انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کا سربراہ بنا کر یہ کام یقینی بنا دیا۔ ہماری حالت بہت خستہ تھی ملک میں نا ہی انفرااسٹرکچر تھا اور نہ ہی اعلیٰ انجینئر اور ہمیں کھیتوں سے یہ کام شروع کرنا پڑا تھا۔ میرے لئے یہ ایک مشن ،ایک خواب کی تکمیل تھی اور جس طرح پاکستانیوں نے محبت کا اظہار کیا وہ سب جانتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ یہ کام صرف اس وجہ سے ہوا کہ میں اور میرے رفقائے کار نے نہایت ہی اعلیٰ ٹیکنالوجی پر بہت جلد عبور حاصل کرلیا تھا۔ غیرملکی ماہرین ہمیشہ شک و شبہ کا اظہار کرتے تھے کہ ایک ٹیکنالوجی جس پر قابو پانے میں تین ممالک جرمنی، ہالینڈ اورانگلستان نے 20 سال لگائے تھے اور 2 ارب ڈالر خرچ کئے تھے وہ ہم جیسا پسماندہ ملک کس طرح استعمال کرسکتا تھا۔ لیکن بھٹو صاحب، جنرل ضیاء، غلام اسحق خان، آغا شاہی اور اے جی این قاضی صاحبان نے ہم پر اندھا (اندھا نہیں آنکھیں کھول کر اور کام کی اہمیت کا احساس کرکے) بھروسہ کیا اور ہم نے نہ ہی ان کو اور نہ ہی قوم کو مایوس کیا۔ آج میں اور میرے ساتھی ایک مطمئن ضمیر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ میں اب پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اب قیامت تک نہ ہی کوئی ایسی ٹیم بنے گی اور نہ ہی ایسا معجزہ دکھائیگی جیسا کہ ہم نے دکھایا تھا۔ آپ یہ نا بھولیں کہ ٹیکنالوجی ہی اس کامیابی کا ذریعہ تھی۔ اب نہ ٹیکنالوجی اور نہ ہی کوئی معجزہ۔ یہ ٹیکنالوجی ہی تھی جس نے ہمیں ایٹمی قوّت بنایا اور ہمیں دشمنوں سے بچا ئے رکھا ہے۔
دیکھئے ایٹمی قوت کا حصول ٹیکنالوجی کے کردار کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام نہ صرف ملکی سلامتی کی گارنٹی ہے بلکہ یہ معیشت کی بحالی و ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کا ذریعہ ہے۔ وہ مشینری جو ہم نے خریدی، وہ پلانٹس جو ہم نے لگائے، وہ نہایت اہم اور مشکل آلات و پلانٹ جو ہم نے خود بنا ڈالے وہ نا صرف ایٹمی قوّت بننے میں بے حدمددگار ثابت ہوئے بلکہ اس کی مدد سے ہم نے فوج کو نہایت اعلیٰ ہتھیار بنا کر اور دے کر کروڑوں ڈالر کی بچت کی۔ لمبی مار کے میزائل بنا کر دشمن کو یہ باور کرادیا کہ اگر اس نے کسی جارحانہ حرکت کا سوچا تو ہم بھی اس کے بڑے بڑے شہر چند منٹ میں کھنڈرات میں تبدیل کردینگے۔ ایٹمی پروگرام کی اِفادیت کے بارے میں آپ کو آنجہانی فرانسیسی صدر جنرل ڈیگال کا مقولہ سنانا چاہتا ہوں۔ جب فرانس نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تو انہیں کہا گیا کہ امریکن، انگریز اور نیٹو کی ایٹمی قوّت کے ہوتے ہوئے آپ کو کیا ضروت ہے تو انھوں نے کہا تھا، ’’ایک ایٹمی پروگرام آپ کو ایسی ٹیکنالوجی میں مہارت دیتی ہے جس کی مدد سے آپ دنیا میں ہزاروں طریقوں (مصنوعات) سے صنعتی مصنوعات سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔‘‘
میرا اس کامیاب اور معجزانہ کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے اور ٹیکنالوجی حاصل ہوئی۔ یہ ایک چَین ری ایکشن ہے جو مسلسل جاری رہتا ہے اور خودکار ہے۔ لیکن اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آپ کو اس پر اچھی رقم لگانا پڑتی ہے۔ مغربی ممالک میں 17 صدی عیسوی میں صنعتی انقلاب اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپین ممالک مجبور ہوگئے کہ ٹیکنالوجی میں کثیر رقوم لگائیں تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے وہ بے حد ترقی یافتہ ہوگئے ہیں اور ہم ابھی تک نالوں کا کچرا صاف نہیں کرسکتے جبکہ ان لوگوں نے چاند پر انسان بھیج دیئے اور مریخ پر راکٹ پہنچا دیئے۔
اب اگر آپ اس پورے واقع پر غور کریں تو آپ کو اس افسوسناک حقیقت کا علم ہوگا کہ ہمارے حکمرانوں اور نام نہاد تعلیمی ماہرین کو ٹیکنالوجی سے قطعی کوئی رغبت نہیں ہے۔ وہ (حکمراں) ایسے کام کرتے ہیں جس سے ان کو یا ان کے دوستوں، عزیز و اقارب کو مالی مدد حاصل ہو یعنی کرپشن فروغ پائے۔ ہم ہمیشہ یہ کہانی سناتے ہیں کہ پاکستان بنتے وقت ہمارے یہاں کوئی انفرا اسٹرکچر نہیں تھا اور ہمیں بہت مشکلات کا سامنا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس اعلیٰ درجہ کا ریلوے نیٹ ورک، نہریں، سڑکیں، تعلیمی ادارے موجود تھے۔ ہمارے پاس نہایت تجربہ کار اور تعلیم یافتہ سول سروس موجود تھی۔ اگر آپ ان تمام سہولتوں کا مقابلہ چین اور جنوبی کوریا سے کریں تو ہم ان سے ہزار درجہ بہتر پوزیشن میں تھے۔ اس طرح ہم آج کے ایشین شہروں سے کہیں بہتر حالت میں تھے مگر اب ہم سوائے ایٹمی صلاحیت کے بالکل پسماندہ حالت میں ہیں۔ دراصل وجہ یہ ہے کہ جو بھی حکمران آئے انھوں نے کبھی تعلیم اور ٹیکنالوجی کو اہمیت نہیں دی، آج بھی یہی حال ہے، بعض جاہل اور نااہل لوگوں کے ہاتھ میں ملکی ترقی کا پروگرام دے دیا گیا ہے۔ میں نے ایک نام نہاد ڈاکٹر و پروفیسر کو دو مرتبہ ایک اعلیٰ یونیورسٹی کا منصوبہ بنا کر بھیجا مگر اخلاقی گراوٹ کا یہ حال ہے کہ مجھے دو لائنوں کا وصول یابی کا خط بھی نہیں آیا۔ جو نااہل ایک چھوٹے سے شہر یا گائوں کی تعمیر نہیں کرسکتے ان کے ہاتھ پورے ملک کی ترقی و ٹیکنالوجی دیدی گئی ہے۔ بس اللہ ہی رحم کرے کہ ان لوگوں سے ہماری جان چھوٹے اور کوئی ایماندار شخص آئے جو اچھے تجربہ کار، تعلیم یافتہ لوگوں کو ان کی فیلڈ کا کام سپرد کرے اور ملک کی حالت تبدیل ہوسکے۔ (جاری ہے)
(نوٹ) میری توجہ ایک روزنامے کی مورخہ 30 مئی 2017ء کی جانب مبذول کرائی گئی ہے جس میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ میری ماہانہ پنشن 4467روپیہ ہے۔ یہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ جب میں پاکستان آیا تھا تو چھ ماہ بعد مجھے3000 روپیہ ماہانہ تنخواہ ملی تھی اور جب25 سال بعد ریٹائر ہوا تو4467 روپیہ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور حکومت کی پالیسی کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ پنشن بڑھ کر اب 91286 ہوگئی ہے۔ پہلی پنشن کے بارے میں کوئی غلط بیانی نہیں کی گئی ہے۔2007ء میں ڈی جی ایس پی ڈی کو علم ہوا کہ میری پنشن پانچ ہزار سے بھی کم ہے اور مجھ پر تقریباً 45 ہزار پونڈ کا قرض ہے جو نواسی کی لندن میں تعلیم کی وجہ سے تھا۔ انہوں نے وہ بھی ادا کرنے کی پیشکش کی جو ہم نے شکریہ کے ساتھ انکار کردیا اور بڑی بیٹی نے لندن میں اپنا گھر بیچ کر ادا کردیا۔ انہوں نے ایک مناسب ایکسٹرا پنشن (جو میرے جیسے افسروں کو ملتی تھی) منظور کرادی جو اَب وقت کے ساتھ ساتھ تین گنا ہوگئی ہے اور بیگم اور میں اس کے لئے انکے شکر گزار ہیں۔ میں نے بھی دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی ملک کو مفت دی تھی اور ایٹمی قوت بنا دیا تھا۔