شمالی کوریا راکٹ انجن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے‎

August 21, 2017

امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے کہا ہے کہ شمالی کوریا ملکی سطح پر بیلسٹک میزائلوں کی طاقت بڑھانے والے انجنز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس انکشاف کے بعد شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگرام کے تکنیکی جدت کے حوالے سے نئے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

یہ انکشاف رواں ہفتے سامنے آنے والے اس جائزے سے بھی متصادم ہے جس میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے حال ہی میں کئے گئے تجربات میں استعمال کئے گئے بین البراعظمی میزائل یوکرین یا روس کی فیکٹریوں میں بنائے گئے تھے۔

ایک امریکی انٹیلی جنس عہدیدار نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ہمارے پاس موجود انٹیلی جنس معلومات کے مطابق شمالی کوریا درآمد کئے گئے انجنز پر انحصار نہیں کررہا، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شمالی کوریا کے پاس درآمدات کے بجائے انجنز بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔

شمالی کوریا کی جانب سے رواں برس مختصر، درمیانے اور طویل فاصلوں تک مار کرنے والے جدید میزائلوں کے تجربات کے بعد پیانگ یانگ امریکا کی خارجہ پالیسی کی ترجیح بن گیا ہے۔ جولائی میں شمالی کوریا نے بین البراعظمی میزائلوں کے دو تجربات کرکے اپنی ٹیکنالوجی کی جدیدت کا مظاہرہ کیا، یہ میزائل بظاہر امریکی سرزمین کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن کو اپنے جوہری مقاصد ترک کرنے کے لئے دھمکی آمیز یا خوش آمدانہ انداز اپنایا گیا اور وہ اس معاملے پر کبھی گرم اور کبھی نرم رویہ اختیار کرتے رہے۔ کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب شمالی کوریائی رہنمائوں نے بتایا کہ کم جونگ امریکی جزیرے گوام پر حملے کے منصوبے پر غور کررہے ہیں جہاں ہزاروں امریکی رہائش پذیر ہیں، تاہم شمالی کوریائی رہنما 15 اگست کی ڈیڈ لائن سے قبل اپنا منصوبے سے پیچھے ہٹ گئے۔

ٹرمپ نے بدھ کی صبح ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’’شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے عقلمندانہ اور قابل ذکر فیصلہ کیا ہے۔ ’’اس کے برعکس فیصلہ تباہ کن اور ناقابل قبول ہوگا۔‘‘

امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ شمالی کوریا پر تحقیق کرنے والے متعدد راکٹ سائنسدانوں سے متصادم ہے جن کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ کو خطے سے باہر جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے انجنز کی تیاری کے لئے جدید ٹیکنالوجی درآْمد کرنا پڑے گی۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا نے 1980 یا 1990 کی دہائیوں کے آخر میں اپنا ہتھیار تیار کرلیا تھا اور اگرچہ اسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل لانچ کرنے میں پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم گزشتہ دو برس میں کم جونگ اُن کی زیرقیادت نئی حکمت عملی کے بعد مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔

اس وقت کے بعد سے طویل فاصلوں تک مار کرنے والے میزائلوں کے متعارف کروائے جانے اور تجربات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر میں کم جونگ اُن نے جوہری ہتھیار لے جانے والا نیا انجن متعارف کروایا تھا جس کے بارے میں چند ماہرین کا خیال ہے کہ وہ سویت دور کے پرانے ماڈل آر ڈی 250 کی طرز پر بنایا گیا ہے، تاہم امریکی انٹیلی جنس کو اب اس بات پر یقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ شمالی کوریا میزائل انجنز ملک کے اندر بھی تیار کرسکتا ہے۔

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک آزاد جائزے کے مصنف مائیکل الیمان کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا تقریباً روسی ساختہ آر ڈی 250 میزائل کا جدید ورژن استعمال کررہا ہے جو کہ صرف دو مقامات پر دستیاب ہے، ان میں سے ایک مقام روس میں پاور انجینئرنگ کمپنی انرگوماش ہے اور دوسرا کے بی یوزہنوئے ڈیزائن بیورو ہے جس کا یوکرین میں واقع فیکٹری یوزوماش سے انتہائی قریبی تعلق ہے۔

تاہم ان کمپنیوں اور یوکرینی حکومت نے شمالی کوریا کو انجنز یا ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی تردید کی ہے۔ یوکرین نے اس معاملے میں ماسکو پر انگلی اٹھائی ہے جس نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پیانگ یانگ کو اسکڈ میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی۔ کم فاصلے تک مار کرنے والے یہ میزائل جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب یہ شمالی کوریا کی اسٹریٹجک میزائل فورس میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کررہے ہیں۔

شمالی کوریا پر تحقیق کرنے والے جرمن راکٹ سائنسدان مارکس شیلر کا کہنا ہے کہ ان کے (شمالی کوریا) کے پاس انجینئرز ہیں اور یہ لوگ اتنے ہی تیز ہوچکے ہیں جیسا کہ دنیا میں ہر کوئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا نے اپنے انجنز تیار کرلئے تو انہیں تعجب ہوگا کیوں کہ سویت دور کے پرانے ڈیزائن کو کاپی کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان کا یہ بیان اس نئی رپورٹ کے شائع ہونے سے پہلے سامنے آیا تھا جس میں شمالی کوریا کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا تھا کہ آیا یہ میزائل امریکا کو نشانہ بناسکتے ہیں۔

شمالی کوریا کے بیشتر جوہری ہتھیاروں کو ایک طویل عرصے سے پہاڑوں میں واقع ٹھکانوں میں چھپایا گیا ہے اور یہ ایک پوشیدہ راز ہے۔ دی ہیریٹیج فائونڈیشن میں امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک سابق تجزیہ کار بروس کلنگنر نے ماضی میں مطلعق العنان ریاست کو انٹیلی جنس برادری میں مشکل سے مشکل ترین اہداف قرار دیا تھا۔

شیلر کہتے ہیں کہ شمالی کوریا گزشتہ ماہ ہواسونگ 14 اور بین البراعظمی میزائل دونوں تجربات میں کامیاب رہا جو کہ حیران کن ہے کیوں کہ وہ توقع کررہے تھے کہ یہ پہلی کوشش میں ناکام ہوں گے۔

ان لوگوں نے انجینئرنگ کی بالکل مختلف برانچز اپنائیں جو میرے لئے ایک معمہ ہے اور یہ لوگ اس میں کامیاب ہورہے ہیں۔ انہوں نے شمالی کوریا کی جانب سے بین البراعظمی میزائل تجربات میں کامیابی، 2015 میں آبدوزوں سے داغے جانے والے میزائلوں کی تیاری اور 2000 کی دہائی میں اسکڈ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی جانب اشارہ کیا۔