مواقع سب کے لئے خیال تازہ…شہزادعلی

August 23, 2017

ایسٹرن آئی ہفت روزہ کے 11 اگست کے شمارہ میں ایڈیٹر کامنٹ میں مواقع سب کے لیے (Opportunity for all) کے عنوان سے ایک ریزولیوشن فاونڈیشن کے ایک سروے کا حوالہ دیا گیا ہے جو برطانیہ کے پالیسی میکرز اور سیاست دانوں کو فوڈ فار تھاٹ ( Foodfor thought) مہیا کرتا ہے کہ وہ یہ ریویو کریں کہ کیا وجہ ہے کہ برطانیہ جس کا دنیا بھر میں یہ امیج بنا ہوا ہے کہ یہاں قطع نظر رنگ نسل مذہب اور اقلیتی پس منظر مواقع سب کے لیے یکساں طور پرمہیا کیے جاتے ہیں۔لیکن تازہ سروے یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اگرچہ برطانوی ایشیائی کمیونٹی کے لیے ملازمتوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ابھی بھی جب اقلیتی طبقوں کی خواتین کی ملازمتوں میں صورتحال اور پاکستانی اور بنگلہ دیشی خاندانوں کی اوسط آمدنی کو دیکھا جائے تو کئی چیلنجزدکھائی دیں گے۔ پاکستانی اور بنگلہ دیشی خواتین کی خصوصی طور پر جاب مارکیٹ میں کم شرح کا ذکر کیا گیا ہے ۔جب تھریسا مےنے جولائی میں وزیراعظم کا چارج سنبھالا تھا تو انہوں نے تو اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایک ایسے بریٹن کے لیے کام کریں گی جو سب کے لیے ہے۔ لیکن حکومت جائزہ لے کہ یوکے کے مختلف گروپوں کے درمیان گیپ ، تفاوت کم کرنے کے حوالےسےاس کی پالیسیاں کتنی موثر ہیں ؟ یوکے کے یورپی یونین سے انخلاء کے بعد بھی ان حوالوں سے کیا تبدیلیاں ممکن ہیں ؟ یہ مشکل سوالات ہیں لیکن ان کے جوابات جاننا ضروری ہیں ۔یہ بھی اشد ضروری ہے کہ اقلیتوں کے لیے مہیا کی جانے والی امداد، ایکشنز اور اقدامات کا بغور نظر جائزہ لیا جائے ورنہ صرف زبانی بیانات یعنی لپ سروس (lip service ) کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اور جہاں کلچرل نورمز (cultural norms) مخصوص مائنڈ سیٹ لوگوں کو پیچھے رہنے پر مجبور کرتا ہے وہاں دیانت دارانہ مباحثوں کی ضرورت ہے۔ بالفاظ دیگر جہاں یہ ممکن ہے کہ ادارہ جاتی تعصب کے باعث پاکستانی اور بنگلہ دیشی پسماندگی کاشکار ہیں اور سفید فام ہمعصرکمیونٹیز کے علاوہ کئی دیگر اقلیتی برادریوں سے بھی پیچھے ہیں وہاںخاص طور پر پاکستانی اور بنگلہ دیشی خواتین کا برطانیہ جیسے مساوی مواقع مہیا کرنے کے دعویدار ایک سپر پاور ملک میں بھی ملازمتوں میں پیچھے رہ جانا خود ان کمیونٹیز کے اندر عورتوں سے متعلق جاہلانہ سوچوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ریزولیشن فاونڈیشن کا سروے جہاں حکومت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے وہاں خود پاکستانی اور بنگلہ دیشی طبقات کے لیے بھی غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔آخر کب ہمارے پاکستانی اور بنگلہ دیشی مرد حضرات ذہنی بلوغت کا مظاہرہ کریں گے؟ عورت کا مقام صرف چولہا (kitchen ) اس سے آگے عورت کا مقام یہ لوگ خواتین کو کب دیں گے؟ ۔ کمیونٹی ایونٹس میں خواتین شاذونادر ہی شامل کی جاتی ہیں برطانیہ میں قریب قریب ہر قصبہ اور شہر میں بشمول ان علاقوں کے جہاں پر کمیونٹی کی سیاسی سطح پرمتحرک فعالیت کے دعوے کیے جاتے ہیں اور جہاں پر بعض اپنی خواتین کو مختلف سطح پر نمائندوں کے طور پر منتخب کیا گیا ان کی بھی اکثریت حقیقی نمائندگی کا تصور اجاگر کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اکثر منتخب خواتین بھی کمیونٹی پروگراموں کا حصہ دکھائی نہیں دیتیں۔ایسی خواتین کی بھی ترجمانی اکثر و بیشتران کے شوہرحضرات ہی کرتے دکھائی دیتے ہیںاور اگر صورتحال کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ چشم کشا صورت حال واضح ہوگی کہ زیادہ تر ہمارے بھائیوں کی اپنی خواتین کی مقامی سیاسی عمل میں شمولیت کی سوچ صرف ان کے ذریعےگرانٹوں وغیرہ کے حصول اور کمیونٹی میں نمود و نمائش تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی خواتین صرف الیکشن کے عرصہ میں ہی فعال نظر آئیں گی۔مقامی سیاست کے علاوہ کشمیری وپاکستانی سیاست اور کئی طرح کے دیگر پروگراموں اور کمیونٹی معاملات میں بھی خواتین آن بورڈ نہیں ہیں اور ہمارے مردوں کا یہ مخصوص مائنڈ سیٹ بھی برطانیہ میں بھی کمیونٹی خواتین کی پسماندگی میں کارفرما ہے۔ جیسا کہ ایسٹرن ہائی نے بجا طور پر درست سمت میں نشاندہی کی ہے کہ اس مائینڈ سیٹ کو چیلنج کرنے کے لیے ایک دیانت دارانہ بحث شروع کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ یہاں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جہاں برطانہ بھر میں مختلف اداروں کو پاکستانی اور بنگلہ دیشی کمیونٹیز کو کئی دیگر بہتر کمیونٹیزکی سطح پر لانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے وہاں خود اپنی کمیونٹی اگر اپنی خواتین کی صحیح معنوں میں امپاوورمنٹ چاہتی ہے تو پھر خواتین کو ایک اعتماد کی فضا بھی مہیا کریے۔۔ورنہ ایک بڑے طبقے ( پاکستانی اور بنگلہ دیشی خواتین ) کے پیچھے رہ جانے سے ان کمیونیٹز کی مختلف شعبوں میں ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اور نہ مختلف مسائل پران آواز موثر ہوگی۔ اس ناہمواری کے قومی سطح پر بھی مزیدمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مذکورہ اداریہ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اب جبکہ بعض شہروں میں اشیائی اکثریت کمیونٹی بن گئے ہیں اوران کی ینگ جنریشنز اور دیگر اقلیتیں اپنے آپ کو واضح طور پر برٹش فرسٹ کے طور پر دیکھ رہی ہیں اس لیے یہ نہایت ضروری ہوگیا ہے کہ سپیڈ اپ چینج تاکہ ہر شخص قطع نظر کلاس یا اتھنیسیٹی یعنی ان کے پس منظرسب کو مواقع تک رسائی حاصل ہو۔مذکورہ ہفت روزہ نے صفحہ اول پر بھی پاکستانی اور بنگلہ دیشی کمیونٹیز میں درپیش صورت حال کی سنگینی کو جلی سرخیوں کے ذریعے بیان کیا ہے کہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی، انڈینز اور وائٹ بریٹنز سے پیچھے ہیں اور ایشین پے گیپ (تنخواہوں میں فرق) شرمناک ہے۔ پاکستانی اور بنگلہ دیشی گھرانوں کی انکم سفید فام برطانویوں کی نسبت نو ہزار پونڈ کم ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارتی باشندوں کا زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کے مالک ہیں خیال رہے کہ پیر 7اگست کو جاری ہونے والے سروے کا ٹائیٹل ہے ڈائیورس آوٹ کم،لونگ سٹیڈرڈز بائی ایتھنیسٹی۔انڈینز اور چائنیز خاندان سفید فام خاندانوں کی طرح 25ہزار پونڈ سے زائد آمدن جبکہ پاکستانی 8ہزار سات سو اور بنگلہ دیشی 8 ہزار نو سو آمدن رکھتے ہیں۔ پاکستانی اور بنگلہ دیشی خواتین میں ملازمتوں کی شرح بالترتیب 37اور 31فیصد نوٹ کی گئی ہے جبکہ یہ شرح وائٹ وومن میں 72فیصد ہے۔ اس بڑے تفاوت کو پاٹنے کے لیے تھنک ٹینک اور سیاسی زعماء حکومت پر راست اقدام کرنے پر زور دےرہے ہیں لیکن یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ جب تک ہمارے لوگ خود اپنے رویوںمیں مثبت تبدیلی نہیں لائیں گے اور اپنی خواتین کو جنیوئن طریقے سے جاب مارکیٹ میں بھیجنے کے لیے اور کمیونٹی معاملات میں ان کی شمولیت کو اہںمیت نہیں دیں گے مواقع سب کے لیے ایک خواب ہی رہے گااور پھر خود ہماری خواتین کو بھی میرے خیال میں بولڈ ہونا ہونا پڑے گا۔