پاکستان کے ستّر برس سوال کرتے ہیں

August 25, 2017

دروازے کے باہرقدم رکھتے ہوئے
میں ٹھٹھک گئی
دیوار کے پار جانا تو مجھے آتا ہے
مکڑیوں کے جال جیسی سڑکوں میں
میں پھنس گئی ہوں
رستے میں رات ہو گئی
اور درختوں کا حزنیہ میلا
شروع ہو گیا
اس شور میں نہ کوئی سڑک
دکھائی دے رہی ہے
نہ کوئی حرف زبان سے نکل رہا ہے
اور نہ سنائی دے رہا ہے
یہ تو بتائو جانا کہاں ہے!
ذہن میں لہریں آتی ہیں
کوئی سمت متعین نہیں ہوتی ہے
چاروں سمت جوار بھاٹا ہی نظر آتا ہے
لفظوں کا جوار بھاٹا
تیز تند شعلوں جیسی زبانیں
بے مقصد دیواریں چاٹ رہی ہیں
صبح کو وہ دیواریں پھر ایستادہ ہوتی ہیں
یہ سب درست ہے
مگر تم یہ تو بتائو
، تمہیں جانا کہاں ہے
ملک کو قائم ہوئے ستّر برس ہو گئے ہیں
تنگ گلیوں میں امڈی کثافت کے پہاڑ
روز بہ روز اونچے ہوتے جا رہے ہیں
سارے انسان بندر بنے
ہاتھ میں استرا لئے
من مانی کر رہے ہیں
میری ٹانگوں میں آگے جانے کا دم نہیں ہے
پھر بھی بتائو جانا کہاں چاہتی ہو
اپنے ہی وطن میں جلا وطن لوگ
ان میں سے کچھ میرے اپنے ہیں
باقی سب دولت کی بوریوں تلے
دب کر چیخ رہے ہیں تو کبھی
پھر دیوار چاٹنا شروع کر دیتے ہیں
یہ سب ٹھیک ہے
مگر تم بتائو تمہیں جانا کہاں ہے
ان کے پاس جو قبروں میں
سوئے ہوئے ہیں
یا ان کے پاس
جن کے اندر زر کی پیاس
ملک کے کونے کونے کو لپیٹ میں
لے رہی ہے
انہیں دکھائی نہیں دے رہا
کہ زر کا دھواں سب کی آنکھوں میں
بھر گیا ہے
تم بتائو، کہاں کے لئے نکلی ہو
اور کہاں جانا ہے!
سامنے جھیل میں تیرتی مرغابیاں بھی
یہی پوچھ رہی ہیں
مگر انہیں ان کی منزل معلوم ہے
مجھے اگر منزل معلوم نہیں
تو قدم کیوں باہر نکالا
میرے وطن کا ڈائسپورا
کیا کوئی جگسا پزل ہے!
مجھے کچھ مت بتائو
مجھے جانے دو
ستّر برس بعد! اب تو جانے دو
سات برس کی تھی جب قدم اٹھانے کا
سوچا تھا
ستّر برس گزر گئے ہیں
مکڑی کے جالے
بڑھتے ہی جا رہے ہیں
سروں پر، قدموں پر اور بدن پر
ساری دنیا دیکھنے کے بعد
یہی نظر آ رہا ہے یا واہمہ ہے!
دروازوں سے باہر قدم رکھنے والے
سب پتھر ہو گئے ہیں
وہ تم ہو یا میں یا مرا ہمزاد!