وارث شاہ کا عشق مجازی خصوصی تحریر…ڈاکٹرصغرا صدف

September 25, 2017

sughra.sadafjanggroup.com.pk
وارث شاہ کی شاعری اور فکر کبھی ایک مضمون کی متقاضی نہیں رہی۔ دو مصرعوںمیں بیان کئے گئے رمز کا سرا تلاش کرنے نکلیں تو فکر کے کتنے سمندر عبور کرنے پڑتے ہیں،تخیل کے کتنے کہساروں کے پار جھانکنا پڑتا ہے اور احساس کے کتنے دریائوں میں اترنا پڑتا ہے یہ صرف وارث شاہ سے محبت کرنیوالا ہی جانتا ہے۔ مصور اپنے اندر کے تمام جذبے رنگوں میں ملا کر تصویر بناتا ہے۔تصویر خاموش رہتی ہے مگر جذبے بولنے لگتے ہیں۔ ہر انسان اپنے جمالیاتی ذوق کے مطابق اُن سے مکالمہ کرتا ہے۔ وارث شاہ نے لفظوں کو تصویروں کی طرح پینٹ کیا اور معنی میں دل کی دھڑکنیں سمو دیں جس سےنہ صرف اس کی شاعری کو بقائے دوام حاصل ہوابلکہ اس کے عہد کا پنجاب بھی ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔ آج جب ہم وارث شاہ کو پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسی اُن مناظرکواپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ عمارتیں،اشیاء،سماج اور انسان اپنی معیاد ختم ہونے پر نیست و نابود ہو جاتے ہیں مگر لفظ باقی رہتے ہیںاور وقت کی رفتار کیساتھ چلتے ہوئے اپنے اندر محفوظ معنی کی تہوں سے پردے اٹھاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بدلتے زمانوں میں ان کی نئی نئی تعبیریں اور تشریحات سامنے آتی رہتی ہیں۔ وارث شاہ کو اپنے اور آنے والے عہد کا ادراک تھا اسلئے اُس نے شاعری کے ذریعے پنجاب کی ثقافت، سیاست اور سماج کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا۔ پنجاب وارث شاہ کا پہلا عشق ہے۔ اُسے اسکے ہر رنگ سے لگائو ہے۔ وہ یہاں بسنے والے لوگوں کے مثبت رویوں، انسانی قدروں اور آفاقی سوچ پر فخر کرتا ہے۔ وہ زمین سے پھوٹنے والی فصلوں، درختوں پر چہچہاتے پرندوں سے لیکر حلوائی کی دکان میں بنتی مٹھائیوں تک کو اپنے مشاہدے اور حافظے کی زینت بناتا ہے۔ اُس نے ہر اُس شے اور رویئے کا ذکر کیا جو یہاں موجود تھی۔ وہ تمام عمر بھاگ بھری دھرتی کے گن گاتا رہا اور اس کے لفظوں کا ترنم قیامت تک پنجاب کے حسن اور لازوال محبت کو گنگناتا رہے گا۔ شاعر ماضی اور حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کا احوال بھی اپنے کلام میں بیان کرتا ہے۔ ظاہر ہے انسانوں کی طرح تخلیق کاروں میں بھی مختلف ہستیاں دانش کے الگ الگ درجوں پر فائز ہیں۔ وارث شاہ مٹی کی نبض محسوس کرنے،اُس کے من کی بات سننے اور اسکے دل کا احوال معلوم کرکے رقم کرنے کا فن جانتا تھا۔ مٹی سے رابطہ ہو جائیں تو پوری کائنات ہمنوا ہو جاتی ہے۔ وارث شاہ زمین کا فرد تھا مگر اُس نے دھرتی کا دامن تھام کر تمام سیاروں کی سیر کی۔ بلندی سے دیکھیں تو اونچ نیچ دکھائی نہیں دیتی۔ اُس کے شعور پر بھی یہ حقیقت جلد ہی عیاں ہو گئی کہ کائنات ایک خالق کی تخلیق ہے اور تمام انسان اُسکی نسبت سے ایک جیسے احترام اور محبت کے لائق ہیں۔ کائنات پر عشق کی حکمرانی ہے۔ عشق سانس بھی ہے اور دھڑکن بھی، محبوب بھی اور محب بھی، عاشق اور معشوق سب کی تاریں اسی سے جڑی ہیں۔ عشق کرنا انسان کا امتیازبھی ہے اورافتخاربھی۔ انسان لاشعوری طور پر جنم لینے والی محبت کو قوی ارادے سے عشق میں ڈھالتاہوا آگے بڑھتا ہے۔ جو انسان عشق کے جذبے کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں وہ کبھی حیوانی سطع سے بلند ہو کر نہیں سوچ سکتے اور نہ ہی انھیں روحانی بالیدگی میسر آتی ہے۔ لیکن یہ بات سو فیصد درست ہے کہ مرد اور عورت کا عشق ہی حقیقی عشق ہے۔ یہ ریاضت کی پہلی منزل ہے۔ جب نفرت، کینہ اور خودی کو الوداع کہہ کر صرف محبوب کو دل کے سنگھاسن پربٹھایا جاتا ہے اور اس کی مرضی کے تابع کر دیا جاتا ہے۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ صدیوںسے ہمارے معاشرے میں مرداور عورت کے عشق کوکمتر بلکہ گناہ سے تعبیر کرنے کا رواج رہا ہے اور اب بھی یہی معاملہ ہے۔ اسلئےدرویش اپنے مجازی عشق کو بھی حقیقی کہنے پر مجبور ہوجا تے ہیں۔ جبکہ کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ناقدین بھی انھیں عام انسان کی طرح دیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ بلکہ وہ ان کے انسانی جذبوں کی نفی کرتے ہوئے انھیں محبت کرنے کا حق دینے کوبھی تیار نہیں۔بہرحال وارث شاہ کے اپنے ذاتی عشق کے احساسات نے ہیر رانجھا کی کہانی میں سمو کر اس قصے کو لازوال بنا دیا۔ایسا قصہ وہی شخص لکھ سکتا تھا جس نے خود عشق کے مراحل طےکئےہوں۔قدم قدم پر اس کے لباس کی مہک اور قرب کا نشہ شاعر کو جس طرح دیوانہ کرتا ہے وہ صرف خیالی باتیںنہیں ہیں۔دوسری طرف رانجھا تخت ہزارہ کو تج نہیں کرتا بلکہ ہیر کی خوبصورتی کی دھوم سن کر اسے فتح کرنے کا چیلنج لے کر آتا ہے مگر اسکے سامنے مفتوح ہو کر چاک (غلام) بننے پر فخر محسوس کرتاہے۔ تاہم یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مجازی عشق کے پل سے گزرے بغیرحقیقی کی طرف پیش قدمی بہت مشکل ہے۔ہیر رانجھا کا قصہ اور بھی کئی شاعروں نے لکھا ہے مگر وارث شاہ کے طرز بیاں اور دلی کیفیات نے اسے منفردبنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وارث شاہ بھاگ بھری کو تو نہ پا سکا مگر اُسے ہیر کے روپ میں بیان کرکے ہیر کو اپنا بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ آج یہ قصہ ہیر وارث شاہ کے نام سے موسوم ہے۔ وارث شاہ نے ثابت کیا کہ مرد اور عورت کا عشق روحانی سطح پر بھی قائم رہتا ہے۔صرف دوا فراد ایک وجود میں ڈھل جاتے ہیں۔ ایک روح اور دوسرا جسم بن جاتا ہے اور دوئی ختم ہوجاتی ہے۔
ہیر روح تے چاک قلبوت جانو بالناتھ ایہہ پیر بنایا ای