نیب انویسٹی گیشن ونگ نے خود کو شریف فیملی ریفرنسز سے دور کرلیا

September 25, 2017

اسلام آباد (عثمان منظور) سپریم کورٹ کے احکامات پر قومی احتساب بیورو کی جانب سے شریف خاندان کے ارکان کیخلاف دائر کیے جانے والے چار کرپشن ریفرنسز اپنی نوعیت کے واحد ریفرنسز ہیں جن کے حوالے سے بیورو کا اپنا انوسٹی گیشن ونگ واٹس ایپ کال کے تنازع کے حوالے سے معروف جے آئی ٹی کی متنازع اور خامیوں سے پُر تحقیقات کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ کو شریف خاندان کیخلاف شواہد کے طور پر لیا جا رہا ہے اور طے شدہ 6 ہفتوں کے وقت میں ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں جبکہ نیب کی تحقیقاتی ٹیم کی رائے ہے کہ ان کیسز میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈلائن کے باعث جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا، جنہوں نے برطانیہ میں موجود اپنے کزن کی خسارے کا شکار قانونی کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں، کو شریف خاندان کیخلاف پراسیکوشن گواہ کے طور پر پیش ہوں گے۔

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بیورو کو کسی اور کی تحقیقات پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے وہ بھی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی تحقیقات پر، اور یہی وجہ ہے کہ بیورو نے مانیٹرنگ جج سے درخواست کے بعد واجد ضیا کا بیان قلمبند کیا اور انہیں پراسیکوشن گواہ بنایا۔

نیب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کے تفتیش کار جے آئی ٹی کی تحقیقات سے اتفاق نہیں کرتے۔ نیب کے ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ نیب نے مذکورہ چاروں ریفرنسز میں کوئی تحقیقات نہیں کیں کیونکہ ادارے کے بعد تحقیقات کیلئے وقت ہی نہیں تھا۔ دیئے گئے ٹائم میں نیب نے انکوائری رپورٹس اور تحقیقاتی رپورٹس مرتب کی ہیں جو ریفرنسز دائر کرنے کیلئے ایک رسمی کارروائی سمجھی جاتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک عمومی کیس میں نیب یکطرفہ کارروائی کرنے سے قبل کسی بھی ملزم کو تین مرتبہ طلب کرتا ہے لیکن شریف خاندان کے معاملے میں ملزم کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا اور ان کے اس جواب کو قبول کرتے ہوئے انہیں مزید طلب نہیں کیا گیا کہ ان کی نظرثانی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ذرائع نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے نیب کیلئے منظور کیے جانے والے معیاری شرائطِ کار (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر) کا حوالہ دیا ہے کہ شکایت کی تصدیق کا عمل دو ماہ میں مکمل کیا جائے، جس کے بعد شروع کی جانے والی انکوائری چار ماہ میں مکمل کی جائے جبکہ انوسٹی گیشن کا عمل مکمل کرنے میں بھی چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں لگنا چاہئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ شکایت کی تصدیق کے عمل سے لے کر انوسٹی گیشن مکمل کرنے تک نیب کو کم از کم 10 ماہ کا عرصہ دیا گیا ہے جبکہ شریف خاندان کے معاملے میں نیب نے سارا عمل 6 ہفتوں میں مکمل کیا کیونکہ سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا تھا۔ نیب کے تفتیش کار سمجھتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ زیادہ وقت اور آزادی دیتی تو ممکن ہے کہ کچھ کیسز خارج کر دیئے جاتے لیکن سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے اب سارا معاملہ واجد ضیا پر ڈال دیا گیا ہے جو عدالتوں میں کیس لڑنے کیلئے استغاثہ (پراسیکوشن) کی مدد کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کیخلاف ایوین فیلڈ کی جائیداد کا کیس نیب میں مشرف دور سے زیر التوا تھا لیکن نیب کے پاس برطانیہ میں دائرہ اختیار نہیں ہے اسلئے انوسٹی گیشن کا عمل طویل عرصہ سے زیر التوا تھا۔ نیب نے سپریم کورٹ کے حکم پر مندرجہ ذیل چار ریفرنسز دائر کیے ہیں: پہلا ریفرنس ایوین فیلڈ پراپرٹی (فلیٹ نمبر 16، 16 اے اور 17 اور 17 اے کے ایوین فیلڈ پارک لین لندن، برطانیہ) کے متعلق ہے۔ دوسرا کرپشن ریفرنس عزیزیہ اسٹیل کمپنی اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے متعلق ہے۔ تیسرا ریفرنس بیرون ملک شریف خاندان کی زیر ملکیت 16 کمپنیوں کے متعلق ہے جن کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے (فلیگ شپ انوسٹمنٹس لمیٹڈ، ہارٹسٹون پراپرٹیز لمیٹڈ، کیو ہولڈنگز لمیٹڈ، کوئنٹ ایٹون پلیس ٹو لمیٹڈ، کوئنٹ سالون لمیٹڈ جس کا سابقہ نام کوئنٹ ایٹون پلیس لمیٹڈ تھا، کوئنٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ، کوئنٹ گلوسیسٹر پلیس لمیٹڈ، کوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹڈ جس کا سابقہ نام ریویٹس ایسٹیٹس لمیٹڈ تھا، فلیگ شپ ڈویلپمنٹس لمیٹڈ، الانا سروسز لمیٹڈ بی وی آئی، لانکن ایس اے بی وی آئی، شاڈرون انکارپوریٹڈ، آنس بیکر انکارپوریٹڈ، کومبر انکارپوریٹڈ اور کیپیٹل ایف زیڈ ای دبئی)۔ چوتھا ریفرنس اسحاق ڈار کیخلاف ہے جنہوں نے، جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق، اپنی آمدنی سے زیادہ اثاثے بنائے ہیں اور ان کی دولت میں مختصر عرصہ میں 91 گنا اضافہ ہوا یعنی یہ دولت 9 ملین روپے سے بڑھ کر 831 ملین روپے ہوگئی۔ پہلے ریفرنس کے حوالے سے نیب کے تفتیش کاروں، جنہوں نے والیم 10 سمیت پوری جے آئی ٹی رپورٹ پڑھی ہے، کا کہنا ہے کہ نیب نے ایوین فیلڈ پراپرٹیز کی تحقیقات کی تھی لیکن شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے اور برطانوی حکام کی جانب سے کوئی جواب نہ دینے کی وجہ سے بیورو نے یہ تحقیقات روک دیں۔ مذکورہ ریفرنس کے حوالے سے کچھ ایشوز ہیں۔ پہلا معاملہ لندن پراپرٹیز کے ساتھ جڑی دو آف شور کمپنیوں کی بینیفیشل ملکیت کا ہے۔ دونوں آف شور کمپنیوں کے بینیفیشل اونر کے طور پر مریم نواز کا نام 2012 میں بی وی آئی کی عمومی انوسٹی گیشن کے فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی میں سامنے آیا جس کے بارے میں شریف خاندان کا کہنا ہے کہ موزیک فونسیکا نامی قانونی فرم میں سے کسی نے ایجنسی کو غلط معلومات فراہم کی تھیں اور مریم نواز ان کمپنیوں میں صرف ٹرسٹی ہیں نہ کہ بینیفیشل مالک۔ حسین نواز نے جے آئی ٹی کو جے پی سی اے لمیٹڈ نامی کمپنی کا خط فراہم کیا جس میں نیلسن اینڈ نیسکول نامی آف شور کمپنیوں کا سیکریٹریل انتظامات سنبھالنے کا ذکر تھا۔ یہ کمپنیاں مینروا نامی ایک اور کمپنی کے زیر انتظام تھیں۔ تاہم، جے آئی ٹی نے بڑی ہی آسانی سے اس خط کو نظراندز کر دیا اور کوئی تصدیق بھی نہیں کی۔ جے پی سی اے کے خط میں لکھا تھا کہ ’’مسٹر حسین شریف کے ساتھ نیسکول اینڈ نیلسن کے بینیفیشل اونر کی حیثیت سے ٹرسٹ ڈکلیریشن، جس پر لاہور کی مریم صفدر نے 2 فروری 2006 کو دستخط کیے تھے اور ان کے پاس بطور ٹرسٹی ان کمپنیوں کا تمام شیئر کیپیٹل تھا، میں وضع شرائط کی بنیاد پر مذاکرات کیے۔ ہم یہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ جے پی سی اے لمیٹڈ نے کبھی مسز صفدر سے ملاقات نہیں کی، ہم نے ان سے نیسکول اور نیلسن انٹرپرائزز کے معاملات چلانے کیلئے کوئی ہدایت بھی نہیں لی۔‘’ جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ مریم اور حسین نواز نے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی میں جعلی / ٹیمپرڈ ٹرسٹ ڈکلیریشن جمع کرائی تھی۔ اس فیصلے تک پہنچنے کیلئے جے آئی ٹی کی رائے تھی کہ ایک تو فورنسک ماہر کی رپورٹ کے مطابق اس ٹرسٹ ڈیڈ پر 2006 میں دستخط کیے گئے تھے دوسرے یہ دستاویز کیلیبری فانٹ میں ٹائپ کیا گیا تھا جو کہ جنوری 2007 میں جاری کیا گیا تھا۔ تاہم، یہ فانٹ 2004 سے ہی ڈائون لوڈ کے قابل تھا لیکن یہ مائیکروسافٹ کے آپریٹنگ سسٹم میں بطور ڈیفالٹ فانٹ 2007 سے آنا شروع ہوا۔ اگر یہ بات ثابت کی جاتی اور طے ہوجاتا کہ یہ فانٹ صرف اور صرف 2007 میں ایجاد ہوا تھا اور اس سے قبل فانٹ کا کوئی وجود نہیں تھا تو یہ ثابت ہوجاتا کہ دستاویزات جعلی تھیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برطانوی کمپنی فری مین باکس نے اس ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ 2006 میں دستخط کیے تھے۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ برطانوی کمپنی کوئسٹ سولیسیٹرز، جس کے مالک جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے کزن ہیں، کی خدمات جے آئی ٹی نے حاصل کیں اور اس کمپنی نے فری مین باکس کو خط لکھ کر تصدیق چاہی کہ آیا فری مین باکس نے حسین اور مریم کے درمیان طے پانے والی ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ دستخط کیے تھے تو فری مین باکس نے تصدیق کی کہ کمپنی نے 2006 میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی تھی۔ تاہم، جے آئی ٹی نے اس حقیقت کا ذکر اپنی حتمی رپورٹ میں نہیں کیا۔ اگر برطانیہ میں کوئی قانونی کمپنی اس طرح کی جعلسازی کرے تو اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ قطر سے فنڈز ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے نیب کے کے تفتیش کاروں کی رائے ہے کہ کسی بھی نتیجے تک پہنچنے سے قبل قطری شہزادے کو وقت اور موقع دینا چاہئے تھا کہ وہ شریف خاندان کے موقف کیخلاف اپنی کوئی رائے پیش کریں۔ نیب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے شریف خاندان کو کئی مرتبہ طلب کیا اور ہر موقع پر خاندان کے ارکان پیش ہوئے لیکن جو دستاویزات جے آئی ٹی نے جو دستاویزات مسنلک کی ہیں وہ صرف اور صرف سفارت خانوں کے توسط سے ہی آ سکتی ہیں اور یہی دستاویزات عدالت کیلئے قابل قدر ہوتیں۔ دبئی سے نوٹری تصدیق (نوٹرائزیشن) کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کی جانب سے جے آئی ٹی کو بھیجے گئے جواب کے مطابق شریف خاندان کے اہالی اسٹیل کے ساتھ 1980 کے معاہدے کا ریکارڈ نہیں ملا۔ اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ معاہدہ جعلی تھا، جے آئی ٹی اہالی اسٹیل سے رابطہ کر سکتی تھی جو اب بھی موجود اور آپریشنل ہے اور وہ اپنا بیان جمع کرا سکتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور جے آئی ٹی نے صرف منتخب گواہان کا سہارا لیا۔ دبئی سے جدہ بھیجی جانے والی اسکریپ مشینری کے حوالے سے ’’اسکریپ مشینری‘‘ کی اصطلاح بظاہر دبئی حکام کو کنفیوژ کرنے کیلئے استعمال کی گئی تھی حالانکہ انہیں مشینری کی نقل و حرکت کے متعلق سوال پوچھنا چاہئے تھا۔ اسکریپ مشینری کو کور کرنے کیلئے کوئی ایچ ایس اصطلاح موجود نہیں۔ دستاویزات میں عربی زبان میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان کے معنی ’’اسٹیل ملز مشینری‘‘ ہے۔ مشینری کے ٹرک کے حوالے سے دبئی کسٹمز کی 28 اصل رسیدیں موجود ہیں جو 3 ستمبر 2001 سے 14 ستمبر 2001 کی تاریخوں کی ہیں۔ حتیٰ کہ جدہ پہنچنے پر اس مشینری کے حالے سے سعودی کسٹمز کی رسیدوں کا ریکارڈ بھی موجود ہے لیکن جے آئی ٹی نے یہ رسیدیں نہیں دیکھیں۔ ہل میٹلز (ایچ ایم ای) کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ عزیزیہ اسٹیل ملز فروخت ہونے کے بعد 2005 میں قائم کی گئی تھی۔ العزیزیہ اسٹیل فروخت ہونے کے بعد 63 ملین ریال حاصل ہوئے جبکہ 40 ملین ریال ہل میٹلز کی 25 فیصد ایکوئٹی میں تبدیل ہوئے جبکہ باقی 75 فیصد حصہ دو سعودی بینکوں اور سرکاری کمپنی سعودی انڈسٹریل ڈویلپمنٹ فنڈز نے ادا کیا۔ فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ اور دیگر کمپنیوں، جو حسن نواز شریف نے قائم کیں یا انتظام سنبھالا، کے حوالے سے شریف خاندان کا کہنا ہے کہ فلیگ شپ معمولی سے سرمایہ سے شروع کی گئی۔ فلیگ شپ کا بزنس ماڈل یہ ہے کہ خستہ حال پراپرٹی خرید کر مرمت کے ذریعے اس کا معیار اعلیٰ کرکے (جس میں اکثر ڈھائی سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگتا ہے) فروخت کی جائے۔ طلب زیادہ ہے اسلئے لندن میں خریدار ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ لہٰذا مذکورہ پراپرٹی کے پیسے دوران مرمت ادا کیے جاتے ہیں اور عمومی طور پر پروجیکٹ کی قیمت میں اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کے پیسے شامل ہوتے ہٰں جو عموما دو ملین پائونڈز ہوتے ہیں، 0.5 ملین پائونڈ بطور ایکوئٹی ادا کیے جاتے یہں جبکہ 1.5 ملین پائونڈ بینک لون ہوتا ہے۔ ڈھائی سال بعد یہی پراپرٹی با آسانی ڈھائی ملین پائونڈ یا اس سے بھی زیادہ میں فروخت کی جا سکتی ہے۔ چونکہ ابتدائی طور پر ایکوئٹی 0.5 ملین پائونڈ تھی اسلئے اسے با آسانی دگنا کیا جا سکتا ہے۔ فلیگ شپ نے ایسے کئی پروجیکٹس پر کام کرکے کئی پراپرٹیز فروخت کی ہیں۔ ایسے کاروبار میں کوئی ورکنگ کیپیٹل درکار نہیں ہوتا۔ فلیگ شپ میں جو رقم استعمال کی گئی اس کے ذرائع یہ تھے: اول) قطری شہزادہ، دوم) العزیزیہ اسٹیل ملز کو فروخت ہونے کے بعد جو رقم ملی وہ حسن شریف کو ان کے بڑے بھائی حسین شریف نے دی، سوم) 2007 میں پارک لین اپارٹمنٹس حسین شریف کو ٹرانسفر کی گئیں، انہوں نے اپنے بھائی حسن کو ان اپارٹمنٹس کو گروی رکھنے اور ڈوئچے بینک سے قرضہ لینے کی اجازت دی۔ یہی رقم خرچ کرکے کاروبار کو مضبوط کیا گیا۔ قرضہ قسطوں میں ادا کرکے 2015ء میں ادائیگی مکمل کی گئی۔