بارہ اکتوبر1999 کی اندرونی کہانی

October 12, 2017

آرمی چیف جنرل ریٹائرڈپرویزمشرف کی غیر موجودگی میں 12اکتوبر 1999کو’’ملٹری ٹیک اوور ‘‘ کاحکم کس نے دیا، یہ حکم جنرل عزیز کا تھا یا سابق صدر نے خود پاکستان سے سری لنکا جانے سے پہلے یہ سب طے کیا تھا، کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف انھیں برطرف کرنے والے ہیں۔

ایک ریٹائر لیفٹیننٹ جنرل نےاس بے مثال بغاوت کی اندرونی کہانی کا انکشاف کیاہے۔ ریٹارئر جنرل عزیز جو کمانڈ میں دوسرے نمبر پر تھے انھوں نے حکم دیا، کور کمانڈر راولپنڈی جنرل محمود نے پلان کو عملی جامہ پہنایا، جبکہ کورکمانڈرکراچی جنرل عثمانی نے کراچی کا کنٹرول سنبھال لیا جہاں مشرف کا اترنے کاپلان تھا۔

ایک ریٹائر جنرل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پرویز مشرف نے اپنی روانگی سے قبل اِ ن تین جنرلز کو بریف کیا تھا، جبکہ ریٹائر لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول بھی اس پلان سے باخبر تھے۔ مشرف نے وزیراعظم کو کیوں گرفتارکیااس کی ایک وجہ’ٹیک اوور‘سےچند ہفتے قبل شہباز شریف اور چوہدری نثار سے ان کی ملاقات تھی جس میں انھوں نے خبردار کیاکہ ’’میں جہانگیر کرامت نہیں ہوں‘‘

انہوں نے انکشاف کیا کہ، ’’ہاں، یہ چار جنرلز پلان سے باخوبی واقف تھے اور مجھے اس وقت پتہ لگا جب اس دن محمود نے مجھے کال کی اور جب میں نے پوچھا کہ چیف کی غیر موجودگی میں ہم کیسے ٹیک اوور کرسکتے ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ اس میں چیف کی مرضی شامل ہے۔ کئی گھنٹے بعد جنرل محمود سابق وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل ضیاءالدین بٹ جنھیں وزیر اعظم نے آرمی چیف مقرر کیاتھا کو گرفتار کرنے کیلئے 111بریگیڈ کو لے کر روانہ ہوئے، فوج نے اس فیصلے کو رد کردیاتھا۔ اس سب کی وجہ سے یہ ’ بغاوت‘ پاکستان کی تاریخ میں بے مثال بن گیا۔ جب مشرف کی برطرفی اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی خبر آئی تو عزیز اور محمود دونوں ٹینس کورٹ میں تھے ۔

انھوں نے مزید بتایاکہ پلان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے وہ جی ایچ کیو کے آپریشن روم کی طرف بھاگے۔ سینئر کمانڈر کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور مشرف کی برطرفی کاحکم نہ ماننے کے بعد گراونڈ پر’ٹیک اوور‘ کرنےکا حکم جنرل عزیز نے دیا۔ اس سب نے اس فوجی بغاوت کو بے مثال بنا دیا کیونکہ ایک طرف انھوں نے وزیراعظم کے آئینی حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور دوسری جانب انھوں نے نئے آرمی چیف کو نہ ماننے کا خطرہ بھی مول لیا، اس کے باعث چند گھنٹوں کیلئے فوج میں بے چینی پھیل گئی ۔

تین اہم جنرلز، عزیز، محموداور عثمانی نےدیگرجنرلز کے برعکس کبھی اس مسئلے پر بات نہیں کی ، حتیٰ کہ ان میں سے کچھ نے تومشرف کے ساتھ ’محبت اور نفرت‘ کے تعلقات پرکتابیں بھی لکھیں ہیں۔ سابق جنرل مزید کہتے ہیں، ’’جنرل محمود کی موجودگی میں جنرل بٹ کے ساتھ جو سلوگ کیا گیا وہ ان کے لیے کافی حیران کن تھا، کیونکہ دونوں کبھی ایک دوسرے کے کافی قریب تھے۔

جنرل بٹ نے بعد میں مجھے بتایاکہ انھیں اس طرح کے توہین آمیز رویے کی امید نہیں تھی۔ بعد میں جنرل بٹ کو قید کا سامنا کرنا پڑا اور کوٹ مارشل کے ساتھ ساتھ بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔ جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہواوہ اب تاریخ بن چکی ہے لیکن 1999اور 2000 کے درمیان اسٹیبلشمنٹ میں یہ سوچا جارہا تھا کہ ان کی سزا قید سے سزائے موت میں تبدیل کردی جائے۔ یعنی کچھ لوگ انھیں ایک ’عبرت ناک مثال‘ بنانا چاہتے تھے۔ سعودی مداخلت نے انھیں بچالیااورایک ’ 10سالہ ڈیل‘ طے ہونےکےبعد سعودی عرب نے پناہ دے دی۔

سابق لیفٹیننٹ جنرل نے تصدیق کی کہ وزیراعظم کے فیصلے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ بہت زیادہ پریشان تھی لیکن بڑے کمانڈرزنےعزیز اور حمود کی ہدایات پر عمل کیا۔انھوں نے بتایا، ’’ جب ایک افسر نے مجھے کال کی اور مجھے بتایاکہ جنرل بٹ نے ان سے رابطہ کیاہے اور کچھ ہدایات دی ہیں تومیں نے انھیں کہاکہ اسے نظرانداز کر دیں۔

جنرل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جو کچھ ایوان ِ وزیراعظم میں ہوااور جو کہانی ان کے ساتھی افسران نے انھیں بتائی اس سے معاملات کی سنگینی کاپتہ لگتاہے اس بات سے قطع نظرکہ وزیراعظم کافیصلہ صحیح تھایا غلط، جس طرح ان کے بے عزتی کی گئی ایسا نہیں ہوناچاہیے تھااور وہ بھی ایک سینئرآفیسر نے کیا‘‘ جس طرح جنرل بٹ کے ساتھ سلوک کیا گیا وہ بھی ہمارے لیے حیران کن تھااور انھیں ایک قیدی کی طرح جیپ میں بٹھایاگیا۔

جنرل نے بتایاکہ وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری کی بھی بے عزتی کی گئی۔ اس دن جو بھی ہوا اس کی مثال نہیں ملتی کیونکہ یہ نہ ہی مارشل لاءتھا اور نہ ہی وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی تبدیلی تھی۔ 1958،1969،1977 میں اس وقت کے جنرلز نے مارشل لاء نافذ کیا، ’آئین‘ کو معطل کردیا۔ لیکن 1999 کی بغاوت میں حکومت اپنی جگہ پر قائم تھی اور ملک میں کوئی افراتفری نہیں تھی۔

یہ بھی پہلی دفعہ تھا کہ آرمی نے نئے چیف کی تعیناتی کوماننے سے انکار کر دیا تھا اور غالباََ شریف اور بٹ دونوں نے ’مشرف‘ کو سمجھنے میں غلطی کی، انھوں نے بغاوت سے ایک ماہ قبل ہی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور اس وقت کے وفاقی وزیرچوہدری نثار علی خان کو بتایا تھا کہ وہ جہانگیر کرامت نہیں ہیں جنھوں نے خاموشی سے استعفیٰ دیا اور گھر چلے گئے تھے، اس وقت وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف کے درمیان کشیدگی کی خبریں بھی گردش کررہی تھیں‘‘ یہ پیغام واضح تھا اور دوایسے سینئر رہنمائوں کے ذریعے وزیراعظم کو بھیجا گیا تھا، جنھوں نے آرمی چیف کیلئےجنرل مشرف کانام وزیراعظم کوتجویز کیاتھا۔ اس وقت تک کنٹرول ٹاورپرفوج کا کنٹرول تھا اورآخرکارجب جنرل مشرف کنٹرول ٹاور کے ساتھ رابطے میں آئےتو اس وقت تک انھیں زمینی صورتحال کے بارے میں سوفیصدیقین نہیں تھا۔ لہذا انھوں نےآرمی آفیسرز سے گفتگوکیلئے کچھ وقت لیااوریہ تصدیق کرنے کے لیے کچھ کوڈ استعما ل کیا کہ ان کے بندوں نے ٹیک اوور کرلیاہے اورنواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی ہے۔ انھیں براہ راست معلومات لینے میں کئی گھنٹے لگے، اس دوران جنرل عثمانی نے انھیں بریف کیااوربعد میں عزیز اور محمود نے ان سے رابطہ ہوا۔

جب مشرف نے قوم سے خطاب کرنے کافیصلہ کیااور پی ٹی وی چلے گئے تو انھیں عجیب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ کس حیثیت سے خطاب کریں۔ پی ٹی وی کے ایک سینئر انچارج مسٹر اطہر وقار عظیم نے کہا، ’’جناب، ہم آپ کی تقریر سے پہلے قومی ترانہ کیسے چلا سکتے ہیں ،‘‘ اس پر مشرف نے وجہ پوچھی کہ کیا مسئلہ ہے، انھیں بتایاگیاکہ ان کے پاس صدر ، وزیراعظم یا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکی طرح کوئی عہدہ نہیں ہے لہذا قومی ترانہ نہیں چلایاجاسکتا۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیااور پہلی بار کسی حکمران کیلئے ریڈیو نشریات سے قبل قومی ترانہ نہیں چلایاگیا۔

بعد میں اسی رات مشرف نے مرحوم شریف الدین پیرزادہ سے رابطہ کیا، جنھوں نے ان کیلئےصدربننے تک ’چیف ایگزیکٹو‘ کی اصطلاح نکالی۔ پیرزادہ نے انھیں مارشل لاء نافذ نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ جب مشرف اسلام آباد واپس آئے اور جی ایچ کیو میں اجلاس کی صدارت کی تو کچھ جنرلز نے مارشل لاء یاطویل فوجی حکمرانی کی مخالفت کی ۔ اس کی بجائے انھوں نے ایک عبوری حکومت بنانے اور چھ ماہ میں انتخابات کرانے کی تجویز دی۔

انھوں نے بتایا، ’’ان میں سے کچھ ان کے پہلے خطاب پر حیران ہوئے تھے جس میں انھوں نے سات نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے کی بنیاد رکھی‘‘ انھوں نے کہا، ’’لیکن جنرل محمود کا کچھ اور ہی خیال تھااور وہ اور چند دیگر شریف اور زرداری کو سزادینا چاہتے تھے اورطویل مدتی پلان رکھتے تھے‘‘ اگر 12اکتوبر کی بغاوت کیلئے کوئی اعلیٰ سطحی انکوائری ہو تی اور اگر ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ بغاوت کو قانونی قرارنہ دیتی توحقیقی چہرے سامنے آجاتے۔ ریٹائر جنرل کا ذاتی خیال ہے کہ 12اکتوبر کا معاملہ شریف اور مشرف کے درمیان ذاتی اناکا مسئلہ تھا، لیکن بعد میں مشرف کے کاموں سے واضح پتہ لگتاہے کہ وہ حکمرانی کے لمبے پلان کے ساتھ آئے تھے اوراس دوران انھوں نے بغاوت کے ساتھیوں کو نظر انداز کردیاجن میں محمود ، عزیزاور عثمانی شامل تھے۔

بعد میں مشرف نے طویل مدتی حکمت ِعملی کاآغاز کیااور اس کیلئے ان کی ٹیم نے عدالت اور پی ایم ایل مخالف سیاستدانوں کا انتظام کیا۔ ایک اور لیفٹیننٹ جنرل اور مشرف کے قریبی دوست ، جو کراچی میں ان کے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں،انھوں نے اپنے دوست کو اِن الفاظ میں بیان کیا، ’’ پہلے وہ اپنے قریبی دوستوں کوسنا کرتے تھے اور اس کے مطابق عمل کیاکرتےتھے، بعد میں وہ خود اپنے مطابق کام کرتے تھےپھر بھی ہمارے خیالات کا احترام کرتے تھےاور پھر انھوںنے سننا بند کردیاجس کے نتیجے میں انھوں نے اپنےکچھ قریبی دوست کھودیے‘‘

جب مشرف کے 10دوستوں نےان کی حکمرانی سے متعلق اورچند مشوروں پر مبنی ایک اجتماعی خط جاری کیا تو حکومت نے شدید ردعمل ظاہر کیا حتیٰ کہ ان میں سے چند کومیرے ’ٹاک شو‘ اور ٹی وی پر آنے سے روک دیاگیا۔ جب پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعتوں جیسے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ریٹائر جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا کہ 3نومبر 2007 کو ایمرجنسی کا نفاذ اور 12 اکتوبر 1999 کی حقیقی بغاوت چھپا کر قوم سے ناانصافی کی گئی اوریہ بھی بتایانہیں گیا کہ اس وقت کیا ہوا تھا اور آرمی چیف جو اس وقت کولمبو سے کراچی کی پرواز میں تھے ان کی غیرموجودگی میںکس نے فوجی بغاوت کا حکم دیا تھا۔

اس میں کوئی حیران کی بات نہیں کہاس ملک میں جمہوریت کیوں کمزور رہی اور ہر بار سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عدم اعتماد کی فضارہی، جب آرمی کی جانب سے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ اور آئی ایس آئی کے ’سیاسی سیل ‘ کی بندش جیسی تبدیلیوں کے باوجود اگر2014کادھرنا یا کراچی میں سیاستدانوں کی ’ڈرائی کلنگ‘ کا طریقہ کار پرعمل ہوتا ہےتو اس سے صرف سیاسی نظام میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ماضی کی غلطیاں دھرانا نہیں داہتے تو یہ اہم ہے کہ سویلینز کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے دیاجائے اور جنرلز کو بھی اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک بار سابق آرمی چیف ریٹائرجنرل وحید کاکڑ نے کہاتھاکہ 1993 میں سپریم کورٹ کی جانب سے شریف حکومت اور سابق صدر کی بحالی کے بعد جب انھیں ٹیک اوور کرنے کا مشورہ دیا گیا تو غلام اسحاق خان نے انھیں وزیراعظم ماننے سے انکار کردیاتھا۔‘‘ ملٹری ٹیک اوور یا ملٹری مارشل لاء مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ سیاستدانوں کو لڑنےسیکھنے دیاجائےاوروہ سیکھ لیں گے۔ 18سال پہلے ہونے ولاے آخری مارشل لاء کا یہ ہی سبق ہے۔ آیئےماضی کودفن کردیں اورایک بہتر مستقبل کی جانب بڑھیں۔