صلح کے معاملے پر کورٹ آف اپیل کا فیصلہ امیگریشن قوانین… ڈاکٹر ملک کے ساتھ

October 21, 2017

چند ہی ہفتے قبل ’’عدالتی فیصلوں کی اشاعت پر پابندی‘‘ کے عنوان سے راقم نے دو کالم لکھے تھے جن میں تفصیل سے بیان کیا گیا تھا کہ ججوں کی ایک کمیٹی نے SALAنامی ایک مقدمہ میںعدالت کی جانب سے کئے جانے والے ایک فیصلے کی اشاعت پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس معاملہ کا پس منظر کچھ یوںہے کہ برطانیہ میںتیس لاکھ کے لگ بھگ یورپی شہری موجود ہیں۔ یورپین قانون کے تحت یورپی شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اگر کسی دوسرے یورپی ملک یعنی کہ برطانیہ میںآجاتے ہیں اور یہاں پر سکونت پذیر ہوجاتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے غیریورپی بیوی بچوں کو برطانیہ لاسکتے ہیں بلکہ اپنے زیرکفالت دیگر رشتہ داروں کو بھی یہاں لاکر انہیں یہاں کی سکونت دلوا سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں کے مصداق اس قانون کا ناجائز فائدہ اٹھایا جانے لگا۔ برطانیہ آکر آباد ہونے والے یورپی شہریوں نے یہاں آنے یا برطانیہ کی سکونت حاصل کرنے والے خواہشمند حضرات کی ’’مدد‘‘ کرتے ہوئے انہیںاپنے دور دراز کے رشتہ دار ظاہر کرتے ہوئے ان کے سکونت کے لئے درخواستیں دینا شروع کردیں۔ بدقسمتی سے ان درخواستوں کی ایک بڑی اکثریت ’’بوگس‘‘ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا نہ برطانوی ہوم آفس نے ایسی درخواستیں مسترد کرنا شروع کردیں جن کے خلاف اپیل کرنے کا حق تھا اس لئے ایسی اپیلیں عدالتوں میں جانا شروع ہوگئیں۔ یہ اپیلیں امیگریشن کے فرسٹ ٹریبونل اور اپرٹربیونل میںکی جاسکتی تھیں۔ جب ان عدالتوں کے ججوں نے دیکھا کہ ایسی ’’بوگس‘‘ اپیلوں کی بھرمار ہوگئی ہے تو انہوں نے ایک فیصلہ کرلیا کہ یورپی شہریوں کے دوردراز کے رشتہ داروں کی سکونت کی درخواستیں مسترد ہونے کی صورت میںکسی اپیل کا حق نہیںہوگا۔ اس فیصلےکے بعد ججوں کی جانب سے ایسی تمام اپیلوں کو مسترد کیا جانے لگا اس معاملہ پر تنازعہ کھڑا ہوگیا کہ ہوم آفس کی جانب سے یورپی شہریوں کے دوردراز کے رشتہ داروں کی سکونت کی درخواستیں مسترد ہونے کی صورت میں اپیل کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ ہمارے اور دوسرے وکلاء کے خیال میں اپیل کا حق حاصل تھا کیونکہ ہوم آفس کی جانب سےکئے جانےوالے فیصلوں میںغلطی کا احتمال رہتا ہے۔ ہوم آفس کے کچھ انصاف پسند وکلاء کی بھی یہی رائے تھی۔ یہ معاملہ ہائی کورٹ میںگیا جہاں سے فیصلہ کیا گیا کہ برطانیہ میں اگر کسی یورپی شہری کے زیرکفالت کسی شخص جوکہ Extended Family Memberہو، کے برطانیہ میںرہنے کی درخواست مسترد ہوجاتی ہے تو ایسے شخص کو اس ضمن میںاپیل کا حق حاصل ’’نہیں‘‘ ہے اور اس طرح برطانوی ہوم آفس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم نے اپنے 9ستمبر2017ء کے کالم میںلکھا تھا کہ ’’راقم کے خیال میںہائی کورٹ نے قانون کی جو تشریح کی ہے وہ درست نہیںہے۔ اس فیصلے کے خلاف اب گزشتہ ہفتے برطانیہ کی ’’کورٹ آف اپیل‘‘ نے ہائی کورٹ کے SALAنامی معاملہ میںکئے جانے والے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا ہے۔ برطانوی کورٹ آف اپیل (Court of Appeal)جو کہ ہائی کورٹ کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت اور شنوائی کرتی ہے کے اس فیصلے کے بعد ان ہزاروں لوگوں کو جن کی درخواستیں یا اپیلیں صرف اس بنیاد پر مسترد کردی گئی تھیں، اب موقع مل گیا ہے کہ وہ اب یا تو ہوم آفس کو نئی درخواستیں دیں اور اگر ایسی درخواست مسترد ہوجاتی ہے تو اب انہیں اس ضمن میںہوم آفس کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق مل گیا ہے یا پھر اگر چاہیں تو براہ راست فرسٹ یا اپرٹربیونل میںبھی درخواست دے کر اپنی اپیل کو بحال کروا سکتے ہیں۔ ہوم آفس نے ابھی تک کوئی عندیہ نہیں دیا ہے کہ وہ کورٹ آف اپیل کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میںاپیل کرنا چاہیں گے یا پھر اس فیصلے کو تسلیم کرکے لوگوں کے بنیادی حق کی پاسداری کریں گے۔ اسی نوعیت کا ایک فیصلہ چند ہفتے قبل بھی آیا تھا لیکن اس کی اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن اب اس طرح کے معاملات کو زیادہ دیر تک خفیہ رکھنا ممکن نہیں رہا ہے اور سچ کو زیادہ دیر تک نہیںچھپایا جاسکتا ہے۔