کیا انقلاب اس طرح آتا ہے

October 27, 2017

یادش بخیر، جب بے نظیر کا پہلا دورہ تھا۔لاہور گورنمنٹ ہائوس میں بیگم بھٹو اور بے نظیر بی بی دفتر میں بیٹھی ہوئی ،ممبران اور کارکنوں سے مل رہی تھیں۔ چاروں طرف سے ہاہا کار مچی تھی کہ نوکری دو ، ہم نے اتنے عذاب سہے ہیں ، کوڑے کھائے ہیں، ہمیں نوکری دو۔ بیگم بھٹو ہر ایک سائل کو تسلی دیتےہوئے کہہ رہی تھیں۔ ہاں ہاں کیوں نہیں تم سب کو نوکریاں ملیں گی۔ اس اسمبلی کے تمام منتخب ممبران نے دل کھول کر اور دھونس جماکر نوکریاں تقسیم کیں۔ جب حکومت ختم ہوئی تو سارے سفارشی نکالدئیے گئے۔اب آئی نواز شریف کی باری۔ انہوں نے جتنے اکی پہلوان کے رشتہ دار اور گوالمنڈی کے لوگ تھے، انکو بھی بے نظیر کی طرح ریوڑیوں کی طرح نوکریاں بانٹیں۔ دورختم، نوکری ختم، اب پھر بی بی اور پھر نواز شریف کا دور بارِ د گر آیا،سوکھے دھانوں پانی پڑا۔ خوب بے دریغ حکم چلے، تیسری دفعہ صرف نواز شریف کو موقع ملا اور بی بی کے کارکنوں کا صرف سندھ میں زور چل سکا۔ دونوں حکومتوں کے دوران، اسطرح نوکریاں بانٹنے پر ، کئی سیاستدانوں پر مقدمے بھی بنے۔ اب پھر جو 2018 کے الیکشن سر پر ہیں، وہی نعرے ہم تمہیں نوکریاں دینگے۔ کوئی نہیں کہتا کہ اسٹیل مل اور پی آئی اے کا بیڑہ غرق تو آپ دونوں اپنی حکومتوں کے دوران کرچکے ہو۔ اب کچھ نہیں تو اپنے نعرے ہی بدلو۔ ملکی معیشت کا حال دیکھو۔ فیکٹریوں والے خاص کر فیصل آباد سے دوسرے ممالک میں جارہے ہیں۔ کوئی نئی نوکریاں، خاص کر معلوم نہیں سی۔ پیک میں کتنے فیصد نوکریاں ملیں گی مگر سستے نعرے ادھر اور اِدھر بھی۔
اسپر طرہ یہ کہ گھر کی استعمال کی چیزوں پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ اتنی مہنگائی اور ان نئے ٹیکسوں پر کوئی پارٹی نہیں بول رہی۔ بس ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ سو دفعہ کہا جاچکا ہے کہ اپنا اپنا منشور سامنے لائو۔ بتائو تو کیا سوچا ہے اس غربت کے بارے میں جس کا حوالہ فوجی سربراہ ہی دیدے تو وزیروں کو مرچیں لگ جاتی ہیں۔ امریکہ ڈرون حملے کرے تو ہم یہ کہہ کر اپنا آپ صاف بچالیتے ہیں کہ یہ سرحد کے دوسری طرف یعنی افغانستان والے حصے میں ہوا ہے۔ ہمارے یہاں خیریت ہے۔
آجکل بہت کانفرنسیں ہورہی ہیں کہ ذرا موسم بدلا ہے۔ ابھی دو دن کی دیہی عورتوں کی کانفرنس پودا والوں نےکروائی تھی۔ سیاسی پارٹیوں کو توفیق ہوتی تو ملک بھر سے آئی ہوئی خواتین کے مسائل جاننے کے لئے ،اپنے کسی امیدوار ہی کو بھیج کر رپورٹ لے لیتے اور مزید توفیق ہوتی تو اپنے منشور کے ایجنڈے میں شامل کرلیتے مگر کیوں، جبکہ یہ حال ہے کہ نوڈیرو میں کالج تو قائم ہوگیا، مگر وہاں کئی سال گزرنے کے باوجود پوسٹنگز ہی نہیں ہوئی ہیں۔ سارے ملک کے پانی میں زنگ(زہر) آرہا ہے۔ جرمن چیئرمین پی آئی اے واپس گیا تو جہاز ساتھ لے گیا اور جہاز جرمن میوزیم کو دیدیا۔ اقلیتوں کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں جس طرح ہندو لڑکیوں کو مسلمان کرنے کی باتیں ہیں، ان کے بارے میں تو کیا دیگر اقلیتوںکے بارے میں بھی حکومتی کسی کارندے کی زبان نہیں کھلتی۔ کہنے کو تو ہر چوتھا سیاسی بندہ کہہ دیتا ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو پاکستان میں انقلاب بلکہ خونی انقلاب آئیگا۔ انہیں خبر بھی نہیں کہ وہ کتنے خطرناک الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں۔ انقلاب باقاعدہ پلاننگ اور مسلسل محنت سے آتا ہے یہاں روزانہ کی پلاننگ تک تو ہے نہیں۔ معلوم ہے سب سیاسی امیدواروں سے ملاقاتیں کیوں ہورہی ہیں۔ ٹکٹ ملنے کے لئے کتنا کام کرنے کو تیار ہیں یہ نہیں پوچھا جارہا ۔ پوچھا جارہا ہے کہ تم میںکتنا مال پارٹی کو دینے اور کتنا خرچ کرنے کی سکت ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک سروے ہوا کہ یہ جو روز چالیس پچاس ہزار کرسیاں لگاکر، رہنما جہازمیں بیٹھ کر آتے ہیں تو خرچ کتنا آتا ہوگا۔ اندازاً فی جلسہ2کروڑ روپے کا خرچہ ہے، کھانا وغیرہ الگ۔ یہ خرچہ ظاہر ہے مستقبل کے امیدوار، اپنی ممبر شپ کے جاگ لگارہے ہیں۔ ان کی بلا سے بچوں کے ا سکولوں میں نہ پنکھے ہیں نہ پانی۔ عجب پالیسیا ںہیں۔ جو بچہ ایف ایس سی میں اول آتا ہے۔ اس کو میڈیکل کے داخلے کے پروگرا م میں بہت کم نمبر ملتے ہیں۔ یہاں نائیجیریا والا حال بھی نہیں ہے۔وہاں چھ سال کے بچوں نے استادوں کے لئے پرچے تیار کئے۔ کمال یہ ہوا کہ ہزاروں استاد فیل ہوگئے اور بچوں کے تیار کئے پرچے حل نہ کرسکے۔ ہمارے ملک میں بھی اس جیسا ہی منظر نامہ ملے گا۔
خدا کا خوف کریں پندرہ دن سے پمز اسپتال میں ہڑتال ہے۔ مجال ہے کہ مرتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لئے کوئی آگے آئے۔ ملک بھر میں بلکہ دنیا بھر میں کینسر کے خلاف شور زوروں پر ہے۔ ہمارے مہربان چیف منسٹر اپنی تصویروں کے ساتھ پورے صفحے کا اشتہار دیدیتے ہیں۔ خداکےبندےانہی پیسوں سے مریضوں کا علاج کروادیتے تو ہزاروں دعائیں ملتیں۔ یہ سب بھول کر کسانوں کے دھرنے پر کوئی توجہ ہی نہ دیتے ہوئے۔ بس ایک نعرہ، انقلاب آجائیگا، بھلا کیسے۔ ہمارے ہاں بار بار کہا جارہا ہے’’صابن سے ہاتھ دھوئیں‘‘، پانی صاف نہیں، منچھر جھیل میں کوڑا کرکٹ ہے۔، آنکھیں تو کھول اے قوم !کل ہی تو دماغی صحت کا دن منایا گیا معلوم ہوا کہ پاکستان کی آدھی آبادی الجھنوں کا شکار ہے۔ کوئی دوسرے کو گولی مارکر یا پھر خاندان بھر کو قتل کرکے، خود کو گولی ماررہا ہے ۔ ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی ووٹ خریدے جائینگے۔ غریب کے بچوں کو آٹھ دن سکھ کے ملیں گے۔ بس اتنا سا انقلاب آئیگا۔ اس وقت سعودی عرب، خواتین کو آزادیاں دے رہا ہے۔ مصر کے معلم نے کہا ہے کہ قلم اور کتاب کا استعمال مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ مگر انڈونیشیا میں انتہا پسندی پھیل رہی ہے۔ یہ ہے انقلاب جس کی نوید ہے۔