فرنس آئل و ڈیزل کی ناقص پالیسی

November 06, 2017

27 اکتوبر 2017 ء کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں ایک اجلاس میں ڈیزل اور فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس کو گیس پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔حکومت کا یہ اقدام نہایت خوش آئند ہے کیونکہ خطیر رقم سے چلنے والے پاور پلانٹس سے اجتناب کر کے ہی گردشی قرضوں سے بچا جا سکتا ہے۔وفاقی حکومت کی ہدایت پر مہنگے تیل پر بجلی بنانے والے پاور پلانٹس بند کر دئیے گئے تھے جس سے لوڈ شیڈنگ کی بہتر ہوتی صورتحال پھر سے بد تر ہوتی نظر آ رہی ہے جس سے عوام مشکلات کا شکار ہیں۔دوسری طرف اِس اچانک حکومتی فیصلے کی وجہ سے پاکستان کی تمام آئل ریفائنریز آئندہ ہفتے تک بند ہونے کا اندیشہ بھی ہے جبکہ اْنکی آئل ذخیرہ کرنے کی استعداد بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔اِس فیصلے سے پی ایس او بھی مشکلات کا شکار ہے کیونکہ وہ پہلے ہی چھ کارگو جس میں 65 سے 70 ہزار میٹرک ٹن فرنس آئل موجود ہے ، کی بکنگ کروا چکی ہے،جس کی مالیت 25 ملین ڈالر فی کارگو بنتی ہے۔اگر اِس فیول کو پاور پلانٹس میں استعمال نہ کیا گیا اور کارگو وقت پر آف لوڈ نہ ہوئے تو پی ایس او کو 10 ہزار ڈالر یومیہ کا خسارہ بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ملک میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور اسموگ کی خطرناک صورت حال کے پیش نظر فرنس آئل کا کم سے کم استعمال فضائی آلودگی کو کم کرنے اور ماحول کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کا احسن اقدام ہے لیکن نیشنل پاور کنٹرول سیل اور پاور سیکٹر کے درمیان عدم تعاون اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ملک بھر کی آئل سپلائی لائن خطرات سے دوچار ہو گئی ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت اِس اچانک فیصلے پر فوری عملی اقدام کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے عملدرآمد کرے تاکہ بجلی کی بروقت اور مسلسل فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ آئل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو لاحق خطرات اور خدشات کو دور کیا جا سکے۔