سر رہ گزر

November 11, 2017

یہ انصاف کا مندر ہے بھگوان کا گھر ہے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے:آئین اور قانون کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، صبر کی داد دیں، سب سنتے ہیں لیکن انصاف سے نہیں ہٹتے، خدا کا شکر ہے کہ ملک کو ایک ایسی عدلیہ نصیب ہے کہ جو دھکے پر دھکا کھا کر بھی جادئہ انصاف سے نہیں ہٹتی، سخت سست سنتی ہے، مگر آئین و قانون کو نشانہ بنائے جانے کے باوجود اس تک کوئی پتھر پہنچنے نہیں دیتی، ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے وطن میں عدل جوہر پیدا، ملک عدل پر قائم رہیں تو وہاں سیاست بھی ثمر آور ہوتی ہے، ورنہ ماضی میں ہم اپنے ہاتھوں انصاف کو دفن کر چکے تھے، آج بھی وہ پھر سے ظاہر و غالب نہ ہوتا تو خدارا کہئے آج ہمارا کیا انجام ہوتا، یہ تو ساری قوم مانے گی کہ عدالت عظمیٰ صبر و تحمل سے کام لے رہی ہے، اور ملک کو کسی بڑے خلفشار سے بچائے ہوئے ہے، اسی ملک میں وہ فیصلے تسلیم کئے جاتے رہے ہیں جو غلط تھے، مگر چونکہ من کو بھاتے تھے اس لئے عین انصاف پر مبنی تھے، اور اب جب اللہ نے سن لی اور کم از کم ہم اعلیٰ عدلیہ کی حد تک منصفانہ فیصلوں تک پہنچ گئے تو آمنا و صدقنا کہنا چاہئے کہ پاکستان کے عظیم مفاد میں یہی موقف ہی درکار ہے، تنقید دراصل اظہار کا حق ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے، لیکن اگر تنقید موجب تخریب ہو جائے تو کیا پھر بھی ایسا حق دیا جا سکتا ہے، اچھائی اپنی روح کھو دے تو وہ برائی بن جاتی ہے، جیسے عبادت بھی دکھلاوے کی ہو تو مقبول نہیں ہوتی، گڈ گورننس، حکمران کے ذات کی نفی کرنے سے پیدا ہوتی ہے، انا کا بت بہت عزیز ہوتا ہے، اسی پیار کو قربان کرنے میں وہ عظمت پوشیدہ ہے جو عجز و نیاز سے ملتی ہے، سچ کا علم سب کو ہوتا ہے اصل بات اسے تسلیم کرنا ہے، ہم اپنی اعلیٰ ترین عدالت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے، شاید خمار اترے تو سب پر حقیقت کھلے بس یہی انتظار ہے۔
٭٭٭٭
اتحادی نوٹنکیاں سیاسی قلا بازیاں
24گھنٹے میں متحدہ پی ایس پی اتحاد ختم، بغاوت کے بعد فاروق ستار سیاست سے دستبردار چند گھنٹے بعد فیصلہ واپس، ایک بنیادی بات جسے ایم کیو ایم نظر انداز کر دیتی ہے کہ ملک میں قومیت کی بنیاد پر کوئی بڑی سیاسی جماعت موجود نہیں، صرف پاکستانیت عوامیت کی بنیاد ہی ہر پارٹی کا نام ہے، پہچان ہے، آدھے سے زیادہ پاکستان کے لوگوں نے ہجرت کی اپنے اصل گھر کی طرف اب کون مہاجر ہے، اردو اسپیکنگ لوگوں نے ہجرت کی پاکستان آئے لگ بھگ اتنے ہی یا اس سے کم و بیش پنجابی اسپیکنگ بھی ہجرت کر کے اپنے وطن پاکستان آئے، لیکن وہ خود کو مہاجر نہیں کہتے اور نہ ہی اس نعرے پر سیاست کرتے ہیں، مہاجر وہ ہوتا ہے جو اپنے وطن سے دیار غیر چلا جائے وہ نہیں جو اپنے گھر لوٹ کے آتا ہے، جب تک ہم اپنے ذاتی برانڈز کے طلسم سے نہیں نکلیں گے ایک قوم نہیں، فقط ہجوم بنے رہیں گے اور ہجوم جہاں ہو وہاں بلوہ ہوتا ہے، قوم ہو تو ملک بنتا ہے، سنورتا ہے منواتا ہے، کوچہ سیاست میں اتنا ہجوم نہ کیا جائے کہ ڈوبنے والوں سے زیادہ بچانے والے ہوں، اس طرح تو خلطِ مبحث ہو جائے گا۔
٭٭٭٭
بیجان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں
متحدہ مجلس عمل بحال، ایک جھنڈے تلے الیکشن لڑنے کا اعلان، بھلا ہو اس سیاست کا کہ ایم ایم اے کو پھر سے ایک جھنڈے تلے جمع کر دیا، اس سے وہ اپنی مرکز میں تمام صوبوں میں حکومت تو نہیں بنا سکیں گے البتہ مذہبی جماعتوں کی سیاسی وقعت کچھ بڑھے گی مگر یہ مذہبی سیاسی اتحاد مذہبی لوگوں کو شاید متحد نہ کر سکے اور ایسا تو کوئی ایجنڈا بھی ہمارے ملک میں نہیں ہوتا، کیونکہ سیاست خالصتاً برائے عوام، سیاسی رہنمائوں کا مطمح نظر ہے نہ مذہبی لیڈرز کا، اس ملک میں کئی ایجنڈے ہیں، جب یہ مکمل کامیابی سے ناامید ہو جاتے ہیں تو جھنڈا ایک ہو جاتا ہے، تاکہ جھنڈے کے ڈنڈے سے استفادہ ممکن ہو سکے، اس طرح کی اتحادی سیاست دونوں طرف پہلے بھی ہوتی رہی ہے نتیجہ یہ ہے کہ غریب عوام وہیں کھڑے ہیں جبکہ امیر سیاستدان و لیڈران اپنی خوشحالی کو اوج ثریا تک لے جا چکے ہیں، حصول دولت و اقتدار ہی ایک ہمہ گیر منشور ہے جس پر کام 70برس سے جاری ہے، اتحاد اچھی بات ہے، مگر جس بات کے لئے ہوتا ہے کیا وہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ ملک میں نظام مصطفیٰ ﷺ پر بھی لوگ بڑے ذوق شوق سے مذہبی سیاست کو طاقتور بناتے رہے ہیں، مگر انجام وہی ڈھاک کے دو پات، جب تک اس ملک میں سیاست صرف دو بڑی جماعتوں کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتی یہ سیاسی مفادات کے نام پر ذاتی مفادات کا منتشر کھیل جاری رہے گا، اب تو وہی حال ہے کہ؎
شد پریشاں خواب من از کثرتِ تعبیر ہا
(تعبیریں اتنی ہو گئیں کہ ہمارا خواب ہی بکھر گیا) اگر تو یہ متحدہ مجلس عمل ملک میں موجود مذہبی تعصبات ختم کرنے کا موجب بنتی ہے، اور اسلام کے آفاقی اصولوں کو جز و سیاست و ریاست بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو بہت ہی اچھا ہو، مگر اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے الگ الگ مساجد رکھنے والے کیا ایک ایسا سیاسی پلیٹ فارم بنا سکیں گے کہ جھنڈے ایک ہونے کے ساتھ دل بھی ایک ہو جاتے۔
٭٭٭٭
زر نگاریاں
....Oبلاول زرداری:علامہ اقبال کا فلسفہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔
اس کے باوجود ہم نے غلط راستوں کا نہایت ذوق شوق سے انتخاب کیا اور وہی پُرخار راستہ اختیار کیا جو سیدھا سونے کی کان کو جاتا ہے۔ فارسی کا مقولہ ہے:’’زرداری خبرداری‘‘ زر رکھتے ہو تو خبر رکھتے ہو۔
....Oمریم نواز:کوئی صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے تو وہ نواز شریف ہے۔
صبر سپریم کورٹ اور صبر نواز میں فرق بھی تو ملاحظہ فرمائیں۔
....Oخادم رضوی کے خلاف کم عمر بچے کے غیر ارادی قتل کا مقدمہ درج،
اس طرح تو ہم سب خادم رضوی ہو سکتے ہیں، کہ سب سے غیر ارادی گناہ تو ہو ہی جاتا ہے۔
....Oاسرائیلی حکام سے خفیہ ملاقاتوں پر بھارتی نژاد برطانوی وزیر مستعفی، بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بھی ثابت ہو گیا اور ہمارے لئے عبرت کہ غلطی پر وزیر از خود مستعفی ہو جاتے ہیں۔