عمران خان پارٹی چیئرمین ضرور ہیں لیکن میں ان کا نوکر نہیں،داورکنڈی

November 19, 2017

کراچی (ٹی وی رپورٹ)عمران خان پارٹی چیئرمین ضرور ہیں لیکن میں ان کا نوکر نہیں ، پارٹی چیئرمین کو یہ اتھارٹی نہیں کہ وہ ایک وڈیو بیان کے ذریعے مجھے پارٹی سے نکال دیں ۔ عمران خان نے اپنا کیس خود ہی خراب کردیا ہے میں پی ٹی آئی ہوں ، میں پارٹی کا حصہ ہوں ، پی ٹی آئی صرف عمران خان کی نہیں ہے آج وہ چیئرمین ہیں کل میں پارٹی کا چیئرمین ہوسکتا ہوں ، پی ٹی آئی سب کی ہے ۔ یہ کہنا تھا جیو نیوز کے مقبول پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ “ میں گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی داور کنڈی کا جو طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔اس حوالے سے پروگرام میں رہنما پیپلز پارٹی فیصل کریم کنڈی اور نمائندہ جیو نیوز پشاور محمود جان بابر نے بھی گفتگو کی ۔فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ جن لوگوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے انہوں نے براہ راست الزام پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور کے انکل پر لگایا ہے کہ وہ ملزمان کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔

میزبان طلعت حسین نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ بلوچستان میں مارے جانے والے تمام لوگ ایران کے راستے یورپ جانے کے خواہشمند تھے اور لگتا یوں ہے کہ دہشت گردوں نے ان کو گھیر لیا اور اپنی دہشت کا نشانہ بناڈالا ۔ دہشت گردی اور انسانی اسمگلنگ دونوں ہی اندوہناک واقعات ہیں جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔طلعت حسین نے ڈی آئی خان میں 27 اکتوبر کو پیش آنے والا شرمناک واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ اس شرمناک واقعہ جس میں بھائی کی غلطی کی سزا بہن کو دی گئی اورایک لڑکی پر تشدد اور برہنہ کرکے بازار میں گھمانے کا شرمناک عمل ہوا ،اس واقعہ نے اخلاقیات اور قانون دونوں کی دھجیاں اڑادیں ۔طلعت حسین نے کہا کہ اس واقعہ کا ہم نے بغور جائزہ لیا لیکن میڈیا فوکس کرکے کوئی ریٹنگ کا گیم نہیں کھیلا اور نہ ہی اس کے اوپر ہونے والی سیاست کا حصہ ہم نے بننا پسند کیا جبکہ اس شرمناک واقعہ کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لڑکی کو انصاف کی فراہمی میں پی ٹی آئی اپنا کردار ادا کرتی لیکن الٹا پی ٹی آئی کے اندر ہی لڑائی نکل پڑی اور اس میں عمران خان بھی خود کود پڑے ہیں اور اب لگتا یہ ہے کہ اس واقعہ سے پی ٹی آئی کی سیاست متاثر ہورہی ہے اور لڑکی کو انصاف دلانے کا اولین مقصد کہیں دور چلا گیا ہے ۔

عمران خان اپنے ٹوئٹ پیغام میں یہ کہتے ہیں کہ میڈیا کا ایک حصہ اس پر سیاست کررہا ہے جو انتہائی شرمناک بات ہے اب جاننا چاہیں گے کہ کیا عمران خان کا یہ پیغام ٹوئٹ کیا واقعی استحصال کے خلاف ہے یا کوئی ایسا تنازع ہے پی ٹی آئی کے اندر جس کے باعث رکن قومی اسمبلی داور خان کنڈی پی ٹی آئی سے نکالے جاچکے ہیں ،جبکہ علی امین گنڈا پور جن پر اس شرمناک واقعہ کے ملزمان کی پشت پناہی کا الزام ہے وہ ابھی تک پی ٹی آئی میں موجود ہیں ۔ محمود جان بابر بیورو چیف جیو نیوز پشاور کا کہنا تھا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ظلم بھی لڑکی کے ساتھ ہوا اور ایف آئی آر بھی اس کے اور اہل خانہ کے خلاف درج کی گئی اب پولیس اس ایف آئی آر کو ختم کرنے کے پراسیس میں ہے اور پولیس نے مان لیا ہے کہ اس نے ایف آئی آر غلط درج کی تھی اور امید ہے جلد ہی یہ ایف آئی آر ختم ہوجائے گی۔مرکزی ملزم سجاول ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکا ہے اور یہی وہ ملزم ہے جس کے حوالے سے کہا یہ تاثر ہے کہ اس کو علی امین گنڈا پور کی پشت پناہی حاصل ہے، سجاول ہی وہ مرکزی شخص ہے جس کی وجہ سے اس واقعہ پر سیاست کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔

تحریک انصاف نے اپنا مجرم داور کنڈی کو مان لیا ہے اور اپنا ایک مائنڈ سیٹ بنالیا ہے او رکسی طرح سے بھی اس واقعہ کی آزادانہ انکوائری کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے ۔ علی امین گنڈا پور کے خلاف عمران خان کو خط لکھنے والے اور بعدازاں اس خط کی پاداش میں پی ٹی آئی سے نکالے جانے والے ۔داور کنڈی نے پروگرام میں طلعت حسین کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایشوز دو ہیں اور دونوں ہی مختلف یہ ان کو یکجا کیا جارہا ہے ایک ہے میرے پارٹی کے ساتھ دو سال سے چلنے والے معاملات جبکہ دوسرا ہے اس لڑکی کا معاملہ ۔ داور کنڈی کا کہنا تھا کہ یہ باتیں جو خط میں ، میں نے بیان کیں یہ اس سانحہ کے بعد میں جب اس لڑکی سے ملا تو اس لڑکی نے خود اس کے چچا اور اس کے خاندان کے لوگوں نے بیان کیں اور کہا کہ پی ٹی آئی کے ایک وزیر اس معاملے میں تمام ملزمان کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے پولیس ایک ایف آر کاٹتی ہے پھر دوسری ایف آئی آر جو اوریجنل ہے وہ کاٹتی ہے لیکن برآمد پولیس کچھ نہیں کرتی ہے جب تمام واقعہ میرے سامنے آیا تو میں نے عمران خان کو 8 نومبر کو خط لکھا جس میں ان کو بھی آگاہ کیا کہ علی امین گنڈا پور اس شرمناک واقعہ میں ملوث ہیں اس پر ایکشن لیا جائے لیکن ہوا یہ کہ21دن بعد خان صاحب مجھے جواب دیتے ہیں جو انتہائی افسوسناک جواب ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ظلم کا شکار اس یتیم لڑکی کی کفالت کروں گا جبکہ مالی اور قانونی ہر قسم کا تعاون جو پہلے سے کررہا ہوں مزید بھی فراہم کروں گا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ علاقہ پی ٹی آئی کا ہے وہاں سے پی ٹی آئی جیتی ہے وہاں سے جیتنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کو اس لڑکی کی داد رسی کے لئے جانا چاہئے تھالیکن الٹا ان کی جانب سے مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جو وڈیو بیان جاری کیا مجھے ان کی لینگویج پر اعتراض ہے ، عمران خان پارٹی چیئرمین ضرور ہیں لیکن میں ان کا نوکر نہیں ہوں ۔پارٹی سے نکال کیوں دیا گیا ، کوئی شوکاز نوٹس دیا گیا کے جواب میں داورکنڈی کا کہنا تھا کہ یہ جو وڈیو آئی ہے اس کے ذریعے خان صاحب نے مجھے پارٹی سے نکالا ہے جبکہ شوکاز نوٹس کوئی مجھے ابھی تک نہیں موصول ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خان صاحب شاید یہ خیال رکھے بیٹھے ہیں کہ میں اس ایشو کو لے کر سیاست کررہا ہوں اور یہ خیال ان کا بالکل ہی غلط ہے ۔ میں نے تو جو بیان لڑکی نے مجھے بتایا وہ میں نے پارٹی کو بتایا اب پارٹی اس کو تسلیم نہ کرے تو یہ پارٹی کا قصور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی چیئرمین کو یہ اتھارٹی نہیں کہ وہ ایک وڈیو بیان کے ذریعے مجھے پارٹی سے نکال دیں ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنا کیس خود ہی خراب کردیا ہے میں پی ٹی آئی ہوں ، میں پارٹی کا حصہ ہوں ، پی ٹی آئی صرف عمران خان کی نہیں ہے سب کی ہے ان نوجوانوں کی ہے جو یہ تصور کرکے پارٹی میں آئے تھے کہ کرپشن کا خاتمہ ہو اور ایک نیا پاکستان بنے ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو پہلے سوچنا چاہئے تھا ، عمران خان کیا یہ مثال سیٹ کرنا چاہتے ہیں کہ جو یتیم لڑکی کے ساتھ کھڑا ہو ، انصاف کی بات کرے اس کو پارٹی سے نکال دو ۔ انہوں نے کہا کہ وڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے اپنا موقف مجھ تک پہنچانے کی مثال خود عمران خان صاحب نے قائم کی ہے اور آج میں یہاں بیٹھ کر اگر بیان دے رہا ہوں تو یہ اسی کا رد عمل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ تو اب آیا ہے میں نے تو خان صاحب کو ہر معاملے میں اپروچ کیا ہے ، کے پی کے احتساب کمیشن بند ہوا تو میں ہی تھا جس نے احتجاج کیا تھا ،پارٹی الیکشن نہ کرانے کا فیصلہ ہوا تو احتجاج میرا ہی سامنے آیا اور یہ سب کچھ آن ریکارڈ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جب بھی خان صاحب سے پارٹی کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ اس پارٹی کو درست طریقے سے چلانا ہے تو ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا مجھے افسوس ہوا کہ میری پارٹی کا ہی لیڈر میری مدد نہیں کرسکتا تو پھر پارٹی کیسے چلے گی ۔ انہوں نے عمران خان کے جھوٹ بولنے کے الزام کے جواب میں کہا کہ جھوٹ اس وقت ہوتا ہے جب بغیر تحقیق کوئی بات کی جاتی ہے عمران خان نے معاملے کی نہ ہی انکوائری کی اور نہ ہی مجھے کوئی شوکاز جاری کیا ، عمران خان نے میرے لئے غلط الفاظ استعمال کئے جو میں برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ میں پارٹی کا ایم این اے ہوں ۔