عمران خان نے آف شور کمپنی کی ملکیت تسلیم کی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ وہ مالک نہیں تھے

December 18, 2017

لندن (سعید نیازی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لندن کے ہیتھروایئرپورٹ پر ایک انٹرویو کے دوران خود اعتراف کیا تھا کہ وہ 1983 میں بننے والی اپنی آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹیڈ کے بانی ہیں ، جس کا انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے کبھی اعلان نہیں کیا اور انہوں نے کہا تھا کہ یہ ان کا حق تھا کہ وہ آف شور کمپنی قائم کرتے۔ عمران خان 13 مئی 2016 کو فنڈ جمع کرنے کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے لندن پہنچے تھے جب صحافیوں نے ان سے ان سے ان کی آف شور کمپنی کے بارے میں پوچھا جس کا اسی دن دی نیوز کے تحقیقاتی رپورٹر احمد نورانی کی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا (13 مئی 2016) کہ پی ٹی آئی چیف کی لندن کی جائیداد فلیٹ 2، 165 ڈرائی کوٹ ایونیو، لندن (ساؤتھ کنگسٹن) ایک بے نامی آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹیڈ کی ملکیت تھی جو 3 مئی 1984 کو چینل آئی لینڈ، جرسی میں رجسٹرڈ کی گئی تھی۔ اس اسٹوری کے نتیجے میں ایک طوفان آگیا اور یہ قابل فہم ہے کہ عمران خان اس خبر کی اشاعت سے بے خبر تھے کیونکہ انہوں نے لندن کے لئے علی الصباح پرواز لی ہوگی اور اس وجہ سے انہوں نے اپنی ملکیت کے بارے میں دو ٹوک گفتگو کی۔ ان کے ترجمان نعیم الحق نے میڈیا پر زور دیا کہ مذکورہ فلیٹ ہمیشہ عمران خان کے نام ہی تھے اور ان کا کسی آف شور کمپنی سے کوئی تعلق نہیں، 4اپریل 2016 کو عمران خان نے خود آف شور کمپنیوں کے ذریعے ملکیت کی مذمت کی اور اسے غیرقانونی طور پر حاصل کردہ دولت کو چھپانے کے لئے بدعنوانی پر مبنی عمل قرار دیا۔ ہیتھرو ایئرپورٹ پر عمران خان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ کس طرح دوسروں کی آف شور کمپنی کی مذمت کر سکتے ہیں جبکہ وہ خود ایک خفیہ کمپنی کے مالک ہیں اور انہوں نے 1997 میں اپنے کاغذات نامزدگی میں یا اس کے بعد بھی کسی وقت اس کا اعلان نہیں کیا۔ عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نےانگلینڈ میں اپنے اکاؤنٹنٹ کے مشورے پر 1983 میں آف شور کمپنی قائم کی تھی تاکہ ٹیکس سے گریز کیا جاسکے لیکن انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی غیرقانونی کام نہیں ہے۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کہ وہ تمام رقم پاکستان لے گئے تھے (آف شور کمپنی کی ملکیت فلیٹ فروخت کر کے)، میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے، میں نے 2012 میں ایک پریس کانفرنس کی جب انہوں نے مجھ سے بنی گالہ کے گھر کے لئے آمدنی کے ذرائع کے حوالے سے سوالات پوچھے تو میں نے نیازی سروسز کی ملکیت لندن فلیٹ کی فروخت کا معاہدہ دکھایا تھا۔ میں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے بنی گالہ کا گھر اس رقم سے بنایا جو لندن فلیٹ فروخت کر کے حاصل ہوئی تھی۔ میں ان پاکستانیوں میں سے ہوں جو 10 ارب روپے بیرون ملک سے پاکستان بھیجتے ہیں اور جس سے پاکستان چلتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ کہنا کہ میں نے آف شور کمپنی بنائی، یہ میرا حق تھا کیونکہ میں برطانیہ کا شہری نہیں تھا۔برطانوی نیشنل نہیں تھا، آف شور کمپنی بنانا میرا حق تھا کیونکہ میں برطانیہ میں پورا ٹیکس ادا کرنا نہیں چاہتا تھا۔ عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے آف شور کمپنی اس وقت بنائی تھی جب وہ برطانیہ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیل رہے تھےتاکہ بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچ سکیں۔ اسی پریس کانفرنس میں عمران خان نے ہیتھرو ایئرپورٹ پر کہا تھا کہ شریف خاندان کو سخت سوالات کا جواب دینا ہے، انہوں نے الزام لگایا تھا کہ شریف خاندان کے پاس لوٹ مار کی دولت ہے۔ ریکارڈ کے مطابق فلیٹ مارچ 2003 میں سات لاکھ پندرہ ہزار برطانوی پاؤنڈ میں فروخت کیا گیا تھا۔ نیازی سروسز لمیٹیڈ 10 مئی 1983 کو کمپنی کوڈ 26211 کے تحت لینگٹری ہاؤس لا موٹے اسٹریٹ سینٹ ہیلیئر جرسی کے پتے پر چینل آئی لینڈ جرسی کی حدود میں رجسٹرڈ کی گئی تھی۔ جرسی حکومت کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی چیف کی بے نامی آف شور کمپنی نیازی سروسز نہ صرف یکم اکتوبر 2015 تک آپریشنل تھی بلکہ عمران خان فروری 2014 تک سالانہ ریٹرن بھی فائل کرتے رہے اور ریٹرن فائل کرنے کے لئے فیس بھی اداکرتے رہے۔ عمران خان نے 25 فروری 2004، 07 فروری 2005، 23فروری 2006، 6 فروری 2007، 07 جنوری 2008، 23 فروری 2009، 19 جنوری 2010، 07 فروری 2011، 29 فروری 2012، 28 فروری 2013، 20 فروری 2014 کو متعلقہ برسوں کے سالانہ ریٹرن فائل کیے اور نیازی سروسز لمیٹیڈ کو جے ایف ایس سی کی جانب سے 30 جون 2015 کو نوٹس جاری کیا گیا کہ اس کمپنی کو رجسٹرار آفس کی جانب سے سال 2015 کے لئے سالانہ ریٹرن فائل نہ کرنے پر یکم اکتوبر 2015 کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے یہ پایا کہ عمران خان 2013 کے کاغذات نامزدگی میں آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹیڈ کا اعلان کرنے کےلئے جوابدہ نہیں ہیں کیونکہ وہ کمپنی کے ڈائریکٹر یا شیئرہولڈر نہیں تھے اور اس وجہ سے انہیں نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عمران خان کی جانب سے فراہم کردہ شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان نہ صرف کمپنی کے مالک تھے بلکہ انہوں نے اس کے اکاؤنٹ آمدنی بھی وصول کی، اس کے ذریعے فلیٹ خریدا، وہاں رہے اور بنی گالہ ہاؤس کی خریداری کے لئے اس کی فروخت سے حاصل ہونے والا پیسہ بھی استعمال کیا۔