آلودہ پانی:یونیسیف کی چشم کشا رپورٹ

January 10, 2018

ملکی اور غیر ملکی ادارے ملک کو درپیش سنگین مسائل کے باب میں رپورٹس شائع کرتے رہتے ہیں لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے خواہ ماضی کی ہوں یا موجودہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ اس لئے ملک میں ماحولیاتی تبدیلی کسی بھی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں بن پائی۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے اطفال کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں دو تہائی سے زائد گھرانے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، ہر سال تقریباً 53ہزار بچے ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ موذی بیماریاں بھی تیزی سے پھیل رہی ہیں، 30سے 40فیصد اموات کا سبب بھی یہ مضر صحت پانی ہے۔ ایسے ناقص پانی کی فراہمی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں واقع دریائے راوی سے تقریباً ایک کروڑ سے زائد شہریوں کو جو پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ مقامی فیکٹریوں کے صنعتی فضلے سے آلودہ ہے، دریائے راوی میں پائی جانے والی مچھلیوں کی ہڈیوں میں دھاتوں کی بھاری آمیزش پائی گئی ہے۔ جبکہ اس آلودہ پانی سے ملحقہ علاقوں کی فصلیں بھی سیراب کی جاتی ہیں۔ حکومت کو آلودہ پانی کی فراہمی کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ملکی و غیر ملکی تجزیاتی رپورٹوں میں اس مسئلے کی نشاندہی تواتر سے کی جا رہی ہے۔ 2012میں بھی ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں نشاندہی گئی تھی کہ پاکستان سالانہ 5.7ارب ڈالر آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے علاج کی مد میں خرچ کررہا ہے جس سے معیشت پر بوجھ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ضروری ہے کہ گلیشیرز اور بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے اسٹوریج بیسن کی تعداد میں اضافہ کیا جائے جو ملک میں صرف تین ہیں۔ فراہمی آب کے انفرااسٹرکچر میں بہتری لانے کیلئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔ یہ مسئلہ صرف وفاقی نہیں حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے صوبہ سندھ میں مضر صحت پانی کی فراہمی کا نوٹس لیا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ اس باب میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں روایتی لاپروائی کی بجائے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گی۔