پاکستان نثراد برطانوی مسیحی اور سیاست گل و خار…سیمسن جاوید

January 22, 2018

گزشتہ چند سالوں سے پاکستانی نژاد برطانوی مسیحیوں کا برطانوی سیاست میں حصہ نہ لینے کی کمی کو بڑی شدت سے محسوس کیا جا رہاہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور طریقہ انتخاب نے اقلیتوں کو بہت مایوس کیا ہے جس کی وجہ سے پچھلی دو دہایوں سے اقلیتیں بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ بیروز گار ی اور غربت نے اقلیتوں کو بری طرح نڈھال کردیا ہے ۔شہروں میں جہاں مسیحیوںکی بڑی آباد یاں ہیںوہاں صورت حال قدرے بہتر ہے مگرشہروں سے دور دیہاتوں میں مسیحیوںکی کوئی وقت نہیں ۔وہ مختلف ایذارسانیوں کا شکار ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کراب تک مسیحیوں کی ہجرت کا عمل جاری ہےاورجو پیدائشی برٹش ہیں انکی تو اب دوسری نسل بھی جوان ہو گئی ہے اور برطانیہ میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اہم پوسٹوں پر فائز ہیںیا اپنے کاروبار کررہے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے جو لندن کے علاوہ، مانچسٹر،نیلسن، لوٹن، کونٹری اور برطانیہ کے دیگر علاقوں میں آباد ہیں ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستانی برٹش مسیحیوں کی موجودہ نسل اردو پڑھنا تو دور کی بات ،اپنی مادری زبان بھی نہیں بولتے اور انہیں اپنے آبائی ملک اور اپنی قوم سے کوئی سروکار نہیں رہا ۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ برطانوی اسمبلی میں اب تک کوئی بھی پاکستانی مسیحی ایم پی نہیں ۔پورے یوکے میں صرف تین کونسلرز ہیں۔جن میں جیمس شیرا جو رگبی کے میئر رہ چکے ہیں ۔مورس جان اور تیسرا پیٹر منی ہے۔سیاست میںنہ آنے کی ایک وجہ شائدیہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسیحی برطانیہ میںکسی منصوبہ بندی یا اپنی کمیونٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے آباد نہیں ہوئے بلکہ جہاں نوکری ملی یاجہاں رہنے کے لئے گھر ملا، وہیں رہائش پذیر ہوگئے۔تعلیم کی کمی، زبان کا مسئلہ یاذرائع معاش کی تلاش وغیرہ بھی وجوہات ہو سکتیں ہیں۔ آج ان کی دوسری نسل بھی صاحبِ اولاد ہوچکی ہے ۔ کہتے ہیںانسان کی فطر ت کبھی نہیں بدلتی۔ یہی ہے جو ساری عمر اس کے ساتھ رہتی ہے۔ترقی یافتہ ملک میں رہنے اور برٹش بورن ہونے کے باوجود ایک کمیونٹی کی شکل اختیار نہیں کر سکے اور نہ ہی دوسرے کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالی ہے۔البتہ جو پاکستان میں سوشل طور پر یا سیاسی طور پر متحرک تھے وہ یہاں بھی اپنی بساط کے مطابق متحرک ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔اور نہ ہی کوئی ایسا پرنٹ یا الیکڑانک میڈیا ہے جو باقاعدہ مسیحیوں میں سیاسی شعور بیدار کرے۔ مگریہ خدا شکرہے کہ پاکستانی نژاد برطانوی مسیحیوںکی حالت بہتر ہے۔ یاد رہے کہ سیاست ایک ایسا راستہ ہے جس سے ہم حکومتی امور میں حصہ لے کر اپنے اور اپنی کرسچن کمیونٹی کے مسائل کو حل کروانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔اس مقصد کے لئے ہمیں برطانوی سیاست میںحصہ لینا پڑے گا۔لہٰذا اس بات کے پیش ِ نظر کئی مسیحی مدبرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہم مسیحی صرف ووٹر نہ بنیں بلکہ ورکر ز بنیں اور عملی سیاست میں حصہ لے کر ہی مسیحی کمیونٹی برطانوی سیاست میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں پاکستان جیسی سیاست نہیں ہوتی کہ الیکشن میں پارٹی امیدوار ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے کسی بڑی سفارش کی ضرورت پڑے یا پھر کسی وزیر یا وزیر اعظم کا رشتہ دار ہونا لازمی ہے ۔یابڑی رقم پارٹی فنڈمیں جمع کروانا پڑے یابرادری اور اپنا ووٹ بینک ہونالازمی ہو۔اس کے برعکس یہاں پارٹی کا متحرک رکن ہونا ضروری ہے۔ صلاحیتیں اور قابلیت کی ضرورت پڑتی ہے جو بلا تفریق اپنی عوام اور ملک کے لئے کارآمد ثابت ہو۔باقی پارٹی کا ہارنا یاجیتنا ، پارٹی کی منصوبہ بندی پر منحصر ہوتا ہے۔گویا برطانیہ میں عملی سیاست میں حصہ لینا کوئی مشکل کام نہیں۔مگر پاکستانی نژاد برطانوی مسیحیوں کا یہ المیہ ہے کہ انہیں سیاست کی اہمیت اور نہ ہی کمیونٹی کی اہمیت کا کبھی احساس ہوا ہے ۔ کمیونٹی کی بھلائی کے لئے ایثار و قربانی دینے اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو کمیونٹی جذبہ سے سرشار اس کمپین کو لے کر ہر پلیٹ فارم پر بات کرتے ہیں۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ برٹش پارلیمنٹ میں آل پارٹی پارلیمینٹرین گروپ برائے پاکستانی مینارٹیزہے۔ جس کے جنرل سیکرٹری کونسلر مورس جان ہیں ۔جوپاکستان میں مسیحیوں کے حالات سے نہ صرف ماہانہ منعقد ہونے والی میٹنگ میں دوسرے پارلیمنٹیرین کو آگاہ کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے اعلیٰ احکام سے بھی بذریعہ خط وخطابت اپنا احتجاج ریکارڈ کر واتے رہتے ہیں۔ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی بدولت بہت سے مسائل اور معاملات حل ہوئے ہیں۔اسی طرح کونسلر جیمس شیرا پاکستانی حکومت اور آرمی چیف سے خط و خطابت کے علاوہ براہِ راست ملاقات بھی کرتے ہیں اور اقلیتوں کے مسائل کے بارے میں بھی انہیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ضروری امر یہ ہے کہ کرسچن کمیونٹی کے لئے کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ سب کومل کر ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ پاکستان میں پارلیمیٹرین آل پارٹی گروپ برائے منارٹی ایسا کوئی گروپ نہیں جو اقلیتوں کے لئے کام کرے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اقلیتیں ،مذہبی امور اور انٹر فیتھ ہارمنی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے انڈر آتی ہیں جہا ںانسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کے امور زیر بحث آتے ہیں۔اسی طرح سینٹ میں بھی مذہبی امور اور مذہبی ہارمنی کی اسٹینڈنگ کمیٹی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ دونوں اسٹینڈنگ کمیٹیاں فعال ہیں تو آج پاکستان میں مذہبی اقلیتیں اتنی مشکل اور مسائل سے دو چار کیوں ہیں۔ اقلیتوں کو اپنے حالات کو سازگار بنانے کیلئے خود بھی تگ و دو کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی دوسرا آ کر انکی حالت نہیں سنوارے گا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ’’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا‘‘۔