لودھراں ضمنی انتخاب کا فاتح کون؟

February 18, 2018

2018کے عام انتخابات سے قبل آخری ضمنی انتخاب مسلم لیگ ن کے نام رہا۔پنجاب عام طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے ۔مگر پنجاب کے چند حلقے ایسے ہیں جہاں پر مسلم لیگ ن کمزور ہے۔لودھراں کے حلقہ این اے154کا شمار بھی انہی حلقوں میں ہوتا ہے۔دو سال قبل ہونے والے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن یہاں سے ہار گئی تھی۔لودھراں کبھی بھی مسلم لیگ ن کا گڑھ نہیں رہا بلکہ یہاں پر گروپس کی سیاست کی جاتی ہے۔صدیق خان کانجو گروپ لودھراں کی سیاست پر چھایا رہا ہے۔2013کے عام انتخابات میں بھی عبدالرحمان کانجو آزاد حیثیت میں جیتنے کے بعد مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تھے۔جبکہ گزشتہ چند سالوں سے لودھراں میںسرمایہ دار سیاستدان جہانگیر ترین کا بھی کردار سامنے آیا ہے۔اسلام آباد بننے سے قبل تھانہ بارکہوہ اور گولڑہ کے متاثرین کو زیادہ تر زمینیں لودھراں میں الاٹ کی گئی تھیں۔جہانگیر ترین کے والد جو اس وقت ایس ایس پی راولپنڈی ہوا کرتے تھے،انہوں نے ان زمینوں کے پرمٹ خریدے اور آج وہاں پر جنوبی پنجاب کا بہترین فارم ہاؤس آباد ہے۔بہرحال بارکہوہ اور گولڑہ کے متاثرین کی ہزاروں ایکڑ اراضی اور پھر عسکری افسران کولودھراں میں الاٹ ہونے والی اراضی کا 90فیصد جہانگیر ترین نے اچھے داموں میں خریدا ۔اس عمل سے جہانگیر ترین زرعی لحاظ سے لودھراں کے بڑے اسٹیک ہولڈر بھی بن گئے او ر عسکری افسران کی زمینیں خریدنے سے ان کے سینئر افسران میں ذاتی تعلقات بھی مثالی ہوگئے۔جہانگیر ترین سیاسی طور پر کبھی بھی لودھراں کے مضبوط سیاسی اسٹیک ہولڈر نہیں رہے بلکہ جہانگیر ترین تو مخدوم احمد محمود کی مرہون منت اسمبلی میں پہنچے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ملازمین کے نام خفیہ طور پر زیادہ شیئر حاصل کرنے کی وجہ سے دونوں میں جھگڑا ہوا اور جہانگیر ترین نے سیاسی طور پر لودھراں میں سکونت اختیار کی۔یہاں سے جہانگیر ترین کا سیاسی سفر شروع ہوا۔جس کے بعد جہانگیر ترین نے اس حلقے میں اربوں روپے خرچ کئے۔شوگر ملز کی آمدن کا ایک مخصوص حصہ اس علاقے کی فلاح کے لئے بھی خرچ کرنا ہوتا ہے،جس میںگنے کے کاشتکاروں کو مل تک رسائی کے لئے اچھی سڑک و دیگر سہولتوں کی فراہمی۔جہانگیر ترین کی شوگر ملز کی آمدن کا بھی مخصوص حصہ اس حلقے میں خرچ ہوتا رہا۔اس کے علاوہ مختلف این جی اوزکے نام پر بھی ترقیاتی کام کروائے گئے۔جس سے جہانگیر ترین اس حلقے میں شہرت کی نئی بلندیوں کو چھونے لگے۔صدیق بلوچ کی زبان کی تلخی اور جہانگیر ترین کے پیسے کی فراوانی نے دو سال قبل ہونے والے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔مگر پیسے سے فوری کامیابی تو ممکن ہے مگر لمبی سیاست کرنا بہت مشکل ہے۔
لودھراں کے حالیہ ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین سے دو بڑی غلطیاں ہوئیں۔پہلی غلطی تو یہ کہ تھانہ کچہری کے بغیر جنوبی پنجاب میں سیاست کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جہانگیر ترین نے جیتنے کے بعد کبھی کسی ووٹر سپورٹر کے لئے تھانہ کچہری جانے کی زحمت نہیں کی۔عام ووٹر کی جہانگیر ترین تک رسائی ناممکن تھی۔جبکہ دوسری غلطی پیسہ تھی۔جس پیسے کے بے دریغ استعما ل سے جہانگیر ترین ضمنی انتخاب جیتے تھے وہی پیسہ جہانگیر ترین کے بیٹے کی ہار کی وجہ بنا۔دو سال قبل جہانگیر ترین نے جس طرح پیسے بانٹ کر ووٹ خریدے تھے ،جس کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔لوگ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ انتخابات کے بعد بھی پیسے بانٹنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور جو موٹر سائیکل اور گاڑیاں انتخابی مہم کے دوران تحفتاََ دی گئی ہیں،انتخاب جیتنے کے بعد اس میں اضافہ ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا اور دو سال قبل ضمنی انتخاب جیتنے کے بعد جہانگیر ترین نے پیسہ دینا تو دور کی بات ہے بلکہ حلقہ کا رخ بھی نہیں کیا۔
جبکہ حالیہ ضمنی انتخاب جیتنے میں مسلم لیگ ن کی طرف سے دو اہم اقدامات کئے گئے۔جن کی وجہ سے لودھراں ضمنی انتخاب جیتا گیا ہے۔لودھراں میں لوگوں نے شہباز شریف کی کارکردگی کوووٹ ڈالا ہے۔جن لوگوں کا جنوبی پنجاب سے تعلق ہے انہیںلودھراںخانیوال سڑک کی اہمیت کا بخوبی انداز ہ ہوگا۔دو سال قبل ضمنی انتخاب میں لودھراں کے لئے دو ارب کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا گیا مگر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 27ارب روپے صرف ایک سڑک کے لئے مختص کردئیے۔8ماہ کے قلیل عرصے میں اس سڑک کا بننا مسلم لیگ ن کی جیت کا سبب بنا۔آئندہ ماہ اس سڑک کا افتتاح ہونے جارہا ہے۔جبکہ دیہی روڈ پروگرام ،بہاالدین زکریا یونیورسٹی سب کیمپس،125بیڈز پر مشتمل لودھراںڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کی تعمیراور بقیہ رہی سہی کسر معیاری اسپیڈو بس نے پوری کردی۔لودھراں میں کسی کی جیت نہیں ہوئی بلکہ ترقیاتی کام جیتے ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی مزاحمتی سیاست نے لودھراں ضمنی انتخاب پر اثر ڈالا ہے لیکن اگر صرف مزاحمتی سیاست ہوتی اور گراؤنڈ پر ترقیاتی کام نہ ہوتا تو لودھراں الیکشن مسلم لیگ ن کبھی بھی نہیں جیت سکتی تھی۔
لودھراں ضمنی انتخاب سے قبل مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کا خیال تھا کہ جہانگیر ترین کا بیٹا یہاں سے باآسانی کامیاب ہوجائے گا۔کوشش صرف یہ کی جارہی تھی کہ شکست کا مارجن کم ہو۔اسی وجہ سے پارٹی نے یہاں پر کوئی بڑا جلسہ نہیں کیا۔مگر ایک شخص نے آخری دم تک ہمت نہیں ہاری اور خاموشی سے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رکھا۔جی ہاں! ضمنی انتخاب لڑنے کے ماہر حمزہ شہباز شریف کا لودھراں کی جیت میں اہم کردار ہے۔پنجاب میں ہونے والےضمنی انتخابات دیکھ لیں ،ماسوائے ایک ،دو حلقوں کے جہاں پر حمزہ شہباز اور ان کے پبلک افیئر یونٹ نے منصوبہ بندی کی۔نتائج مسلم لیگ ن کے حق میں آئے۔میری ذاتی اطلاع کے مطابق لودھراں ضمنی انتخاب میں حمزہ شہباز کے علاوہ پوری جماعت ہمت ہار گئی تھی کہ جیتنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بس شکست کا مارجن کم ہو۔مگر حمزہ شہباز کی خاموش سیاسی منصوبہ بندی نے جہانگیر ترین کو اپ سیٹ کرنے میں مدد دی۔قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ خاکسار این اے120کے ضمنی انتخاب میں حمزہ شہباز کی غیر موجودگی پر بار بار کہتا رہا کہ حمزہ شہباز شریف کو یہ ضمنی انتخاب لیڈ کرنا چاہئے۔کیونکہ انہیںپنجاب میں دو درجن کے قریب ضمنی انتخاب لڑ کر اچھا خاصا تجربہ ہوچکا ہے اور میں نے نشاندہی کی تھی کہ مسلم لیگ ن کی فتح کا مارجن کم ہوگا ۔اگر این اے 120کے ضمنی انتخاب میں حمزہ شہباز موجود ہوتے تو نتائج میں کم از کم 15سے20ہزار کا فرق ہوتا اور مسلم لیگ ن کی فتح کا مارجن زیادہ ہوتا۔یہ سب بالا حقائق مسلم لیگ ن کی فتح کا سبب بنے۔
مزاحمتی سیاست کو عوام پسند کرتے ہیں اور نوازشریف کو مزاحمتی سیاست کا اچھا رزلٹ ملا ہے ۔مگر صرف مزاحمتی سیاست سے بھی نتائج اچھے نہیں آتے۔اب لوگ مزاحمتی سیاست کے ساتھ آپکی کارکردگی کو بھی دیکھتے ہیں۔اگر صرف بڑے جلسوں سے ووٹ پڑتے تو جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف سے بڑے جلسے شاید ہی کوئی کرسکتا ہو۔نوازشریف سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ سیاست میں حکمت عملی کا اہم کردار ہوتا ہے۔اگر اداروں کے سامنے مزاحمت کرنی ہو تو پھر اچھی کارکردگی اور مناسب حکمت عملی اشد ضروری ہے۔وگرنہ حالیہ سینیٹ کے ٹکٹوں سے تو لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔کسی نے خوب ٹوئٹ کیا ہے کہ "جیسے مسلم لیگ ن نے ٹکٹ تقسیم کئے ہیں ،اس سے تو لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے سینٹ سے انتقام لیا ہے"۔سیاست جذبات کے بجائے دماغ سے کریں وگرنہ بہت نقصان ہوگا۔