مایوسی کفر ہے

March 04, 2018

میرے ایک محبوب کالم نگار نے لکھا کہ ’’23برس میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ سکھانے سے لوگ سیکھتے ہیں خود بخود نہیں ۔اگر شخصیت پرستی اور جنون کا درس دیا جائے تو سیکھنے اور سمجھنے کا کیا سوال ۔کسی ایک پر کیا موقوف۔تمام سیاسی پارٹیوں بلکہ مذہبی جماعتوں کا حال بھی یہی ہے۔‘‘ میرے عہد کےایک اور اہم ترین کالم نگارنے لکھا۔’’اگلے پچاس سال تک بھی ایک ایسا سیاسی ایماندار اور قابل لیڈر نظر نہیں آ رہا جسے دیکھ کر ہم سکون سے مر سکیں کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کا دھیان رکھے گا ‘‘
مجھے یہ دونوں کالم مایوسی کی تاریک گہرائیوںمیں لے گئے ۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔میں ڈپریشن کے سمندرمیں کہیں اداس ، غمگین اترتا چلا جارہا تھا کہ اچانک لہروں میں ارتعاش اٹھا اور مجھے عمران خان کی آواز سنائی دی ’’ہم نے ہار تسلیم نہیں کرنی ۔آخری سانس تک لڑتے رہنا ہے ‘‘ اُس آواز میں اتنا یقین تھا کہ میں یک لخت سطحِ سمندر پر ابھر آیا ۔ مجھے صبح ِکاذب کی تاریکی میں صبح ِ صادق کی پہلی کرن نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اور میں پھر جنگ کےلئے صف بستہ ہو گیا۔بے شک تبدیلی کا خواب سوالیہ نشان کی طرح آنکھوں میں چبھ رہا ہے ۔میں اکثر فواد چوہدری سے پوچھتا رہتا ہوں کہ اُن شرفاء سے نجات کیسے حاصل ہو سکتی ہے جنہیں یہ ملک اطلس و کمخواب کے ملبوس پہناتے پہناتے خود برہنہ ہو گیا ہے۔جن کی الماریوں میں سونے کی سلیں رکھتے رکھتے اس کی اپنی تجوریاں سنسان ہوگئی ہیں۔جن کی جھولیاں بھرتے بھرتے خود اس کی اپنی جھولی خالی ہوگئی ہے۔جن کالے بوٹوں کی ایڑی کی ایک ایک قوس پر اس دھرتی نے کئی کئی کروڑ ڈالروار دئیے ہیں ۔یقین کیجئے کہ عمران خان کے غیرفانی اعتماد سے بھرے ہوئے چہرےکے سوا کوئی جواب بھی دل کو سکون نہیں دیتاکیونکہ یہ تمام لیڈر شپ ربڑ کی بنی ہوئی ہے ٹوٹتی ہی نہیں ہے ،کبھی سکڑ جاتی ہےاور کبھی کھچ کر بڑی ہوجاتی ہے۔ ہمارا واسطہ شیر کے روپ میں حکمرانیٔ روباہ سے پڑا ہوا ہے۔میں نے ایک بار خواب میں علامہ اقبال سے پوچھا تھا انقلاب کیسے آئے گا تو وہ کہنے لگے ۔’’تبدیلی اُس کھیت کو جلائے بغیر ممکن نہیں جس سے دہقان کو روزی میسر نہ ہو۔تبدیلی کی صبح سرمایہ دارانہ نظام کے قتل سے نمو دار ہوتی ہے۔جاگیر داری کی قبر سے نکلتی ہے ۔ملائیت کی راکھ سے جنم لیتی ہے مگراِس تبدیلی کےلئے لوگوں کو کیسے تیار کیا جاسکتا ہے ۔عمران خان نے 23 سال میں اس تبدیلی کےلئے کئی الیکشن لڑے مگر نتیجہ صفر نکلا مگر وہ باہمت شخص مایوس نہیں ہوا ۔اپنا طریقہ کار بدلتا رہا۔کہیں کامیاب ہوا کہیں ناکام ہوا ۔ کئی منافقین بھی ساتھ مل گئے مگر اس کے چہرے پر مایوسی کے بادل کبھی نہیں لہرائے ۔ٹکٹوں کی تقسیم پر انگلیاں اٹھتی رہیں ۔سیٹوں کی تقسیم پر جھگڑے ہوتے رہے ۔کئی بار غلط فیصلے ہو گئے مگر اُس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے انہیں درست کرنے کی پوری کوشش و کاوش کی ۔کئی دوست دلبرداشتہ ہو کر اسے چھوڑ بھی گئے مگر پھر بھی اس کےلئے دعاگو ضرور رہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کہیں اگر روشنی کی کوئی مدہم سی کرن موجود ہے تو صرف اور صرف وہی ہے اس کے علاوہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔اتنا گہرا اندھیرا ہے کہ سمت کا تعین بھی ممکن نہیں رہا ۔
دوستو! عمران خان کی جیب میں اگر کھوٹے سکے ہیں تو ہونے دو ۔یہ یاد رکھو کہ خالی جیب سکڑ جاتی ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی جیب سے تمام سکے نکال کر ہتھیلی پر رکھے تھے ۔انہیں غور سے دیکھا تھا ۔پرکھا تھا۔سب کھوٹے تھے مگر انہوں نے وہ کھوٹے سکے پھر اپنی جیب میں ڈال لئے تھے ۔جیب میں کھوٹے سکے ہونے کا دکھ انہیں بھی بہت تھا یقیناً عمران خان کو بھی ہوگا مگرہم سب جانتے ہیں کہ جمہوریت کی جنگ میں سکے پرکھے نہیں جاتے گنے جاتے ہیں ۔چوراور صادا ایک ہی پولنگ اسٹیشن پر ایک ہی باکس میں ایک طرح کا ووٹ ڈالتے ہیں ۔سو اس نظام کو بدلنے کےلئے پہلے اِس نظام کو فتح کرنا ہوگا ۔قاتلوں کو انہی کےہتھیاروں سے قتل کرنا پڑے گا ۔یہ نظام اور کسی ہتھیار کو لائسنس جاری ہی نہیں کرتا ۔الیکشن جیتنے کےلئے انہی تین چار افراد میں سے کسی ایک کو ٹکٹ دینا پڑے گا جو اُس علاقہ کی سماجی صورتحال کے مطابق الیکشن لڑنے کے قابل ہیں ۔تحریک انصاف میں پچھلے کئی انتخابات میں نئے لوگوں کو ٹکٹ دئیے۔جنہیں کامیابی نصیب نہیں ہوسکی ۔کئی ایسے نوجوانوں کو بھی ٹکٹ دئیے گئے جوسوشل میڈیا پر بہت مقبول تھے مگر انتخابات لڑنے کے زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں ۔سابق صدرپرویز مشرف کو سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں نے پاکستان بلایا مگر جب وہ کراچی ایئر پورٹ پر اترے تو کوئی نہ تھا ۔الیکشن لڑنے کےلئے لوگوں کی غمی اور خوشی میں شریک ہونا پڑتا ہے ۔ان کے ساتھ تھانہ کچہری میں جانا پڑتا ہے ۔اِ س عہدِ کرپشن نواز میں اپنے ووٹرز کو حق دلانے کےلئے اُس کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔پھر کہیں جا کر ووٹر یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ شخص میرے ووٹ کا حقدار ہے۔
حسن نثار جسے ’’بدمعاشیہ ‘‘کہتے ہیں اُ س کامقابلہ ہماری شریف النفس سفید پوش اشرافیہ کیسے کر سکتی ہے ۔وہ جس نے کلاشن کوف اٹھا رکھی ہے اُس کے سامنے کوئی ’’کلیم ِ بے تجلی ‘‘ کوئی ’’مسیح ِ بے صلیب ‘‘ کتنی دیر ٹھہر سکتا ہے ۔جوالیکشن آتے ہی لوگوں پر بینکوں کی تجوریوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔اُس کا مقابلہ عزت کے ساتھ دو وقت کا کھانا کھانے والا کیسے کر سکتا ہے ۔(بے شک لالچ انسان کے خمیر میں موجود ہے )
میرے محبوب کالم نگار !سب عزتیں اور سب احترام اُس ـ’’حرف ناتمام‘‘ کے نام جس نے مجھے ہر موڑ یہی کہا ہے کہ ’’مایوسی کفر ہے ۔ ‘‘آپ نے اپنی زندگی کے اٹھارہ قیمتی سال کپتان کو دئیے ہیں ۔ باقی بھی دے دیں ۔اللہ کے نزدیک یہ خسارے کا سودہ نہیں ہوگا۔
میرے دوست کالم نگار !تم توابھی نوجوان ہو ۔ابھی سے ہمت ہار گئے ہو ۔نہیں نہیں تم ہمت نہیں ہار سکتے ۔زندگی بھر صحرائی آندھیوں سے ٹکرانے والے کے مزاج میں ہی نہیں ہے ۔ہمت ہارنا ۔ہمیں یہ جنگ فتح یا موت تک جاری رکھنی ہے ۔