شام اور شام غریباں

March 05, 2018

اگرچہ تصاویر جھوٹ نہیں بولتیں مگر جھوٹے لوگ تو تصاویر بنا سکتے ہیں۔امریکی ماہر سماجیات لیوس ہائن
جنگ اس قدر مکروہ اور غیر منصفانہ عمل ہے کہ اسے مسلط کرنے والوں کو پہلے اپنے اندر ضمیر کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔روسی مصنف ،لیو ٹالسٹائی بہت سے لوگوں کی طرح میرے لئے بھی سوشل میڈیا ایک ایسا گوشہ عافیت ہے جہاں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے راہ فرار حاصل کرنے کے لئے عارضی پناہ لی جا سکتی تھی لیکن اب حقیقی زندگی سے کہیں زیادہ اس سماجی ٹھکانے سے خوف آتا ہے۔جونہی سماجی رابطوں کی کسی ویب سائٹ پر جاتا ہوں ،وہاں پھوٹتے خون کے فوارے میرا چین لوٹتے ہیں ،بچوں کے کٹے پھٹے اعضاء دیکھ کر آنکھوں کی پتلیاں بے جان ہونے لگتی ہیں اور دل دھڑکنا بھول جاتا ہے ،دفعتاً خیال آتا ہے یہ تومحض فوٹو شاپ کا کمال ہے پھر سوچتا ہوں ،یہ تصویریں جعلی ہو سکتی ہیں مگر شام میں انسانیت سوز مظالم کی داستانِ خونچکاں تو اصلی ہے ۔کچھ کھانے پینے کی کوشش کرتا ہوں تو سوشل میڈیا سے لعن طعن کی آوازیں آنے لگتی ہیں ،اوئے !بے ضمیر انسان وہاں مشرقی غوطہ میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے اور تم ……یہاں تک کہ پی ایس ایل کے میچ دیکھتے ہوئے شرمندگی وندامت کا احساس ہوتا ہے۔خجالت سے عرق آلود چہرے پر کپڑا ڈال کر سونے کی کوشش کرتا ہوں تو نیند آتے ہی بھیانک خواب دیکھ کر اٹھ جاتا ہوں ۔لہو لہو بے گور وکفن لاشے دیکھ کر خون کھولنے لگتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ بندوق اٹھا کریا کسی خود کش جیکٹ کا بندوبست کرکے شام کی طرف نکل جائوں ۔پھر سوچتا ہوں وہاں جا کر کس سے لڑوں ؟کس دشمن کی صفیں روندتا ہوا پیش قدمی کروں کہ خونریزی کا یہ سلسلہ تھم جائے اور بیقرار روح کو قرار آ جائے ؟شمالی الغوطہ جا کر بشار الاسد کی فوج سے بھڑ جائوں یا روسی ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر لیٹ جائوں ؟دیر الذور میںسیرین ڈیموکریٹک فورسز سے ٹکرائوں یا ریحالی اور شنگل میں فری سیرین آرمی سے لڑتا ہوا مر جائوں ؟کس کو کس سے بچائوں ؟کس سے دوستی کا ہاتھ بڑھائوں اور کس کو بہادری کے جوہر دکھائوں؟چارسو قاتلوں اور مقتولوں کی ٹولیاں ہیں۔ہر ایک بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی ۔بچے تو شمال مغربی علاقے افریں میں بھی مر رہے ہیں جہاں امت مسلمہ کے چاکلیٹی ہیرو طیب اردوان کی فوجیں شام کے باغیوں سے ملکر کردوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔انسانیت سوز مظالم کے اعتبار سے تو داعش نے بھی کبھی نہ ختم ہونے والے ریکارڈ بنا رکھے ہیں۔القاعدہ سے منسلک نصرہ محاذ جس کا نیا نامــ’’ حیات تحریر الشام ‘‘ہے ،گلے کاٹنے میں تو اس کا بھی کوئی مقابل نہیں ۔مگر کیا ہے کہ سب کا اپناڈیڑھ اینٹ کا شام ہے ،سب کی الگ دیوار گریہ ہے ،لڑائی کی صف بندی تو الگ ہے ہی مذمت اور آنسو بہانے کے لئے صف ماتم بھی جدا جدا ہے۔تل رفعت ،مناعق ،راجو،من بیجی ،افرین سمیت پورا شام کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کی لپیٹ میں ہے اور چپے چپے پر رنج و الم کی داستانیں بکھری ہیں مگر تعصب کی عینک سے دیکھنے والوں کو بس ادلب،الیپو اور شمالی الغوطہ کے بچے ہی نظر آتے ہیں۔جس طرح چند ماہ پہلے ایک زوردار مہم چلی، ہمیں معلوم ہوا کہ الیپو میں بہت خون بہہ رہا ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھکا جاتا ہے اسی طرح آج کل شمالی الغوطہ خبروں میں ہے اور اگر باغی یہاں سے پسپا ہو گئے تو پھر یہ صفِ ماتم تب تک کے لئے لپیٹ دی جائے گی جب تک سرکاری فوج کسی اور شہر کو باغیوں سے چھڑانے کے لئے پیش قدمی نہیں کرتی ۔کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ کٹی پھٹی تصویروں کی لہر مخصوص وقت پر کیوں آتی ہے اور پھر تھم کیوں جاتی ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جب شام کو نیست ونابود کرنے والی آگ ٹھنڈی پڑنے لگتی ہے تو سوشل میڈیا پر جذبات بھڑکانے کا سلسلہ تیز تر ہو جاتا ہے تاکہ امت مسلمہ کے جذباتی نوجوانوں کو اس جنگ میںایندھن کی صورت شامل کرکے یہ آگ مزید بھڑکائی جا سکے ؟
آٹھ برس ہوتے ہیں ،تیونس سے اٹھنے والی عرب اسپرنگ کی لہر پھنکارتی ہوئی شام میں داخل ہوئی اور بشار الاسد کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ۔بظاہر اس مزاحمتی تحریک کا ایجنڈا بہت واضح تھا کہ بے روزگاری اور بدعنوانی کا خاتمہ ہو ،لوگوں کو سیاسی آزادیاں اوربنیادی حقوق میسر آئیں ،آمریت کو جمہوریت سے بدلا جائے ۔مگر یہ تحریک ہائی جیک ہو ئی تو اچھا خاصا ملک دیکھتے ہی دیکھتے مسلکی فٹبال بن کر سب کی بے رحم ٹھوکروں کی زد میں آگیا۔گِدھ تو تب تک بدن نہیں نوچتے جب تک کوئی انسان یا جانور مر نہ جائے لیکن آدم خور عالمی طاقتیں پہلے ہی بھنبھوڑنے لگتی ہیں۔شام میں افراتفری پھیلتے ہی سب خونخوار درندوں کے جبڑے کھل گئے ۔ایک ہنستا بستا ملک اچانک عالمی چرا گاہ میں تبدیل ہو گیا۔امریکہ نے اپنی گیم شروع کر دی ،سعودی عرب نے موقع غنیمت جان کر بشار الاسد کو ہٹانے اوراپنی کٹھ پتلی حکومت لانے کی جدوجہد تیز کردی۔ایران کیوں پیچھے رہتا ،اس کی تو علاقائی بالادستی خطرے میں تھی چنانچہ اس نے لبنان تک اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے غیر اعلانیہ طور پر القدس فورس اور انقلابی گارڈز کے دستے شام بھجوانا شروع کر دیئے ،روس بھی اپنے اتحادیوں کو مشکل میں دیکھ کر مدد کرنے آن پہنچا ،اس دوران ترکی نے سوچا کیوں نہ موقع غنیمت جانتے ہوئے ،داعش کو ساتھ ملا کر کردوں کو سبق سکھایا جائے ،اسی طرح داعش پاک افغان خطے میں لڑ رہے طالبان کی طرح سی آئی اے کے کرایہ دار سپاہی تھے مگر ان میں بتدریج گروہ بندی ہوتی چلی گئی ۔رقعہ داعش کا مضبوط گڑھ بن چکا تھا لیکن امریکی تعاون سے کردوں نے بے مثال جدوجہد کی اور اس شہر کو داعش کے قبضے سے چھڑا لیا ۔رو سی فوج کی آمد سے باغیوں کا زور ٹوٹ گیا اور انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔باغی اور ان کی پشت پناہی کرنے والے ممالک چاہتے ہیں کہ بشار الاسد اقتدار چھوڑ دے اگرچہ کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں لیکن بشار الاسد اقتدار سے الگ ہو جائے تو بھی یہ جنگ ختم نہیں ہو گی بلکہ لیبیا اور یمن کی طرح گلی محلے کی سطح پر آجائے گی۔یہ لڑائی تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک بساط بچھا کر مہرے آگے بڑھاتے شطرنج کے غیر ملکی کھلاڑی واپس نہیں جائیں گے ۔
ہاں البتہ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ جنہیں روہنگیا مسلمانوں کا درد ستاتا ہے ،یمن کے حالات دیکھ کر ان کا کلیجہ منہ کو کیوں نہیں آتا ؟جو شام میں ناحق خون پر آنسو بہاتے ہیں ،انہیں اپنے ملک کے پشتون قتل ہوتے نظر کیوں نہیں آتے ؟اے پی ایس پشاور کے قاتلوں کو زندہ دیکھ کر دل کیوں نہیں دہل جاتے ؟یوں لگتا ہے سُکھ تو سُکھ ،دُکھ بھی سانجھے نہیں رہے ،سب کی اپنی اپنی دیوار گریہ ہے ،روگ اور سوگ کے پیمانے جدا ہیں،درد کے افسانے مختلف ہیں،ہر ایک کی مظلومیت کا خانہ الگ ہے،سب کا اپنا اپنا شام ہے اور سب کی اپنی ہی شامِ غریباں۔