معاشرہ اور کوبرا بلکہ کوبرے

March 08, 2018

میرے کالموں کے دو مجموعے پاکستان کی 50ویں سالگرہ پر ’’سارنگ پبلی کیشنز‘‘ نے شائع کئے۔ محترمہ پروین ملک اور مرحوم وسیم گوہر ’’سارنگ‘‘ کے کرتا دھرتا اور خود بھی خوب صورت لکھاری تھے۔ وسیم گوہر نے پبلشرز نوٹ میں لکھا کہ حسن نثار قلم کی بجائے کوبرے کے پھن سے الفاظ میں ایسا زہر بھر دیتا ہے جس سے پڑھنے والے کا تن من لو دینے لگتا ہے۔ میں نے وسیم سے کہا ’’تم نے مجھے سپیرا بنا دیا ہے اور سپیروں کا رزق سانپوں کے پھنوں پر دھرا ہوتا ہے‘‘۔آج 20سال بعد چیف جسٹس عزت مآب ثاقب نثار کے ریمارکس پر مجھے یہ بھولا بسرا مکالمہ یاد آیا۔ چیف جسٹس صاحب نے کوبرا ٹریڈ مارک کیس کی سماعت کے دوران کہا ... ’’معاشرے کو کئی قسم کے کوبرا سانپوں کا سامنا ہے۔ کئی لوگ خود کو کوبرا کہلوانا بھی پسند کرتے ہیں۔ کوبرا کی کئی اقسام ہیں۔ کوبرا کالا، سفید، لال اور نارنجی رنگ کا بھی ہوتا ہے‘‘ جج صاحب نے ایک جملے میں تاریخ بیان کردی ہے تو اس میں تھوڑا سا اضافہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ہم عوام کو صبح شام کوبروں کے ساتھ ڈیل کرنا پڑتا ہے تو چند بنیادی معلومات پیش خدمت ہیں تاکہ بوقت ضرورت ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ایک تو ہوتا ہے سادہ کوبرا جو اٹھارہ فٹ تک لمبا ہو سکتا ہے اور انسانی صورت میں ہو تو اس کے ہاتھ قانون کے ہاتھوں کی لمبائی کو بھی چیلنج کرسکتے ہیں۔ کوبرا خاصا تیز رفتار بھی ہوتا ہے جو بارہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی ادھر ادھر آجاسکتا ہے۔ کوبرا روئے زمین پر اپنے خطرناک ترین Hoods کے سبب زہریلی ترین کاٹ کی وجہ سے بھی بڑی شہرت کا حامل ہے۔ کوبرے کے بارے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر اسے کھلا یعنی Untreatedچھوڑ دیا جائے تو پھر اس جیسی مہلک مخلوق کوئی نہیں۔ کوبرا کا زہر انسانی ہی نہیں انسانی معاشرے کے نروس سسٹم کو بھی بری طرح متاثر اور تہہ و بالا کرسکتا ہے۔ اس کے زہر سےوژن بھی ڈسٹرب ہوسکتا ہے یعنی ٹھیک سے دیکھنے کی صلاحیت مجروح ہو سکتی ہے۔ صحیح غلط اچھے برے کی پہچان کا بیڑہ غرق ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوبرے کا زہر کھوپڑی سے جڑے مسلز کو بھی بری طرح اپ سیٹ کرسکتا ہے اور قوت گویائی بھی جواب دے سکتی ہے۔ پھر چاہے فیض احمد فیض بھی کہے ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘.... آدمی بولنے کے قابل نہیں رہتا۔ عام طور پر کوبرا ڈسنے کے بعد 30منٹ کے اندر اندر سانس بند ہونے لگتا ہے لیکن شکار ذرا ڈھیٹ اور سخت جان ہو تو کبھی کبھی 35,30سال بھی نکال جاتا ہے لیکن حال بہرحال اس کا برا ہی ہوتا ہے۔اک اور قسم کے کوبرے کو تھوکنے والا کوبرا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جسمانی ریشوں کیلئے انتہائی خطرناک ہوتا ہے جو آنکھوں پر تھوک دے تو لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔ اس کے سائیڈ ایفکٹس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسانی سیلز کی موت واقع ہونے لگتی ہے اور انسان ناقابل برداشت قسم کی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔اب چلتے ہیں بلیک کوبرا کی طرف جسے عموماً انڈین کوبرا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان وغیرہ میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ شہرت اس کا مہلک ترین سریع الاثر زہر ہے۔ کہنے کو تو اسے بلیک کوبرا ہی کہتے ہیں لیکن یہ گرے اور برائون بھی ہوسکتا ہے۔ انسانی روپ دھار لے تو اس کے رنگوں کا شمار ہی ممکن نہیں۔ اس کے بارے میں انتہائی قابل غوراور اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر اس کو چھیڑ کر چھوڑ دیا جائے تو اس کی خطرناکی و سفاکی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ اپنا پھن پوری طرح پھیلا کر اپنی دم پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اور پوری قوت و شدت کے ساتھ حملہ کرتا ہے اور بار بار حملہ کرتا رہتا ہے جو تب تک جاری رہتا ہے جب تک اس کا پھن پوری طرح کچل نہ دیا جائے۔ کوبرا کی خوراک چوہے، مینڈک، کیڑے مکوڑے اور دیگر حشرات الارض ہوتے ہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کچھ لوگ عوام کیلئے بھی حشرات الارض کی اصطلاح کیوں استعمال کرتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ جو کوبرے انسانی شکل اختیار کر لیتے ہیں، انسان ہی ان کی مرغوب ترین غذا قرار پاتے ہیں۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ انسانوں کو کھانے کا مہذب و مقبول ترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے حصے کے وسائل ہڑپ کر لئے جائیں اور یہی وہ طریقہ ہے جسے ’’وائٹ کالر کرائم‘‘ کہا جاتا ہے اور اس بارے مشہور ہے کہ اسے ثابت کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میزان عدل کے ایک پلڑے میں ملزم کی آمدنی اور دوسرے پلڑے میں اس کے اثاثہ جات رکھ کر اسے کہا جائے کہ اس فرق کا جواز پیش کرو اور اگر وہ جواباً یہ کہے کہ ’’تمہیں اس سے کیا؟‘‘ تو پھر اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو ماہر سپیرے زہریلے سانپوں کےساتھ کرتے ہیں، زہر کی پوٹلی پنکچر کر کے انہیں کینچوئوں میں تبدیل کردیتے ہیں۔کیسا وقت آچکا اس ملک اور معاشرہ پر کہ عزت مآب جسٹس عظمت سعید جیسی شہرت کی حامل شخصیت کو بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ....’’میں 14سال سے جج ہوں، کبھی توہین عدالت کا نوٹس نہیں لیا، اب تنگ آچکا ہوں‘‘۔یہ ٹیڑھی دُمیں اور لاتوں کے بھوت ہیں۔ انتہا یہ کہ وکیل بھی اپنے موکل کی باتوں پر شرمندہ، تو اس سے بڑا سچ کوئی نہیں کہ معاشرے کو قدم قدم پر کئی قسم کے کوبروں کا سامنا ہے اور معاشرہ سپیروں کیلئے دعاگو۔