زما نہ چھو ڑ دیں گے

March 08, 2018

چھوڑ کے دنیا ساری تجھ کو اپنا بنالوں
سب سے چھپا کے تجھ کو دل میں بسالوں
تو ہی میری پہلی خواہش تو ہی آخری ہے
تو میری زندگی ہے۔ تو میری ہر خوشی ہے
تو ہی پیار، تو ہی چاہت، تو ہی بندگی ہے
تو میری زندگی ہے……
یہ وہ شہرہ آفاق غزل ہے جو تصور خانم نے آج سے کئی دہائیاں قبل گائی تھی۔ جی وہی تصور خانم جس نے
وے سب تو سوہنیا ہائے وے من موھنیا
میری تیری ہوگئی پیار وچ کھوگئی
گا کر شہرت حاصل کی تھی ۔ جی یہی تصور خانم کچھ روز قبل پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں دیکھی گئیں، جہاں انہیں پی این سی اے نے ملک بھر سے بلائے گئے فنکاروں کے کنونشن میں بلارکھا تھا۔تصور خانم نے زندگی اور فن کی زندگی کا بھی طویل سفر طے کیا ہے اس لیے شاید وہ جب چلتی ہیں تو ان کی سانس پھولنے لگتی ہے ۔وہ چلنے کے لیے کوئی سہارا ڈھونڈنے لگی ہیں کیونکہ انکے اعضا اب اس انداز میں ان کا ساتھ نہیں دے پارہے تھے کہ جب وہ پو رے جو بن سے گا یا کرتی تھیں۔
اگر تم مل جائو زمانہ چھوڑ دیں گے
تمہیں پا کر زمانے بھر سے رشتہ توڑ دیںگے ہم
لیکن پی این سی اے کے ایک بینچ پر سستانے کے لئے بیٹھی تصور خانم کے قریب سے جب وزیرمملکت مریم اورنگزیب گزریں تو وہ اپنی تمام تر تو ا نا ئی اکٹھی کرکے وزیر کی طرف لپیکیں اور انہیں بیماری کا دکھڑا سنانے لگیں۔وزیر مملکت نے بھی انہیں یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی کہ اب اپنی درخواست میرے اسٹاف کو دے دیں، حکومت کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی بلکہ تصور خانم کے ساتھ کھڑی ہوگئیں ان کا ہاتھ پکڑ لیا انہیں تسلی دی اور انہیں کہاکہ یہ فنکاروں کا کنونشن اسی لیے بلایا ہے کہ حکومت ان کے لیے ایک ایسی پالیسی بنائے کہ فنکاروں کو، وزراء یا حکومتی افسران کو روک کر اپنا دکھڑا نہ سنانا پڑے بلکہ فنکارجنہوںنے ایک سپاہی کی طرح اپنی ثقافت کو فروغ دیا ہوتا ہے، اپنی ثقافت کی حفاظت کی ہوتی ہے۔اپنی زندگی کے بہترین دن آرٹ کے فروغ کیلئے استعمال کئے ہوتے ہیں اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کو محظوظ کیا ہوتا ہے اور دنیا میں ملک کا نا م چمکا یا ہو تا ہے۔وزیر مملکت اور تصو ر خا نم کی اس گفتگو کے اگلے روز فنکاروں کا قومی کنونشن منعقد ہوا جس میں وزیراعظم نے بھی آنا تھا لیکن وہ مصروفیت کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے ۔فنکاروںنے اسٹیج پر آکر گلے شکوے کئے ۔کچھ نے کنونشن بلانے پر حکومت کی تعریف کی۔ شیما کرمانی بوجھل دل کے ساتھ گلے شکوے کرتی نظرآئیں ،قو ی خان نے بھی اپنے انداز سے گفتگو کی۔ عثمان پیرزادہ بھی تھے ۔شان نے بھی فلم کے حوالے سے بات کی۔ فنکاروں کاکنونشن بلا کر ان کے مسائل پر گفتگو کرنا،ملک میں فن کے فروغ کے لیے بات چیت کرنا، اپنی ثقافت اور اپنے فنکا ر پر بات کرنا یہ حکومت کا ایک احسن قدم ہے۔ لیکن حکومت جو اپنی مدت اقتدار ختم کررہی ہے اس کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہے کہ ماضی میں بھی ایسے کنونشن ہوئے ،فنکاروں کو اچھی کو اچھی رہائش اور اچھے کھانے دیئے گئے۔اسٹیج پر انہیں تعریف کی مالا پہنائی گئی ۔ان سے وعدے کئے گئے۔ فلم کے شعبہ کو انڈسٹری بنانے کی باتیں، ٹیکس میں چھوٹ دینے کی باتیں ،اکیڈمی کے ذریعے نوجوان فنکاروں کو اداکاری اور فلم کی تربیت دینے کی بات ، لیکن عملی طورپر صرف آٹے میں نمک کے برابر ہی کام ہوا ۔ فنکاروں کو فلم کے شعبہ سے وابستہ اور دیگر آرٹ کے شعبہ جات کے ماہرین کو یہ یقین دلایاگیا کہ اب سب کچھ انہیں کے لیے ہوگا وہ جس محرومی کا شکار رہے ہیں اب وہ دور ہو جائے گی۔ انہیں عزت وقار دیاجائے گا۔ اور فنکار جو اپنی زندگی کے آخری دن کسمپرسی میں گزارتا ہے اب وہ سب نہیں ہوگا۔ کچھ فنکار اسے ماضی کی طرح ایک سیاسی وعدہ سمجھ کر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے۔کچھ امید کی ڈور سے بندھ کر خوابوں کے نئے قلعے تعمیر کرکے خوش ہوگئے لیکن مجھے اس رنگ و روشنی کے اجتماع میں وہ تصور خانم نظر نہیں آئی شاید وہ کہیں کھوگئی تھی۔ البتہ اس کی گائی ہوئی غزل کے ان اشعار کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے ،
اگر تم مل جائوزمانہ چھوڑ دیںگے ہم