مجھے نیند نہیں آتی، کمیشن کہے تو بیمار ہوجاتا ہوں: سیکریٹری صحت سندھ

March 09, 2018

سیکریٹری صحت سندھ فضل اللہ پیچوہو نے عدالتی کمیشن کے روبرو کہا ہے کہ انہیں نیند نہیں آتی اور یہ کہ کمیشن اگر کہے تو وہ بھی بیمار ہوجاتے ہیں۔

مزید سختی پر انہوں نے کمیشن سے آئی لو یو کہا تو کمیشن کی سماعت کے دوران قہقہے گونج اٹھے۔

جمعہ کو سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم پر مشتمل واٹر کمیشن نے سندھ کے سرکاری اسپتالوں کے منصوبوں اور ان کی حالت زار کا معاملہ اٹھایا۔

چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری صحت، سیکریٹری ایس اینڈ جی ڈی اور دیگر پیش ہوئے۔

کمیشن نے سوال کیا کہ محکمہ صحت میں گزشتہ دو سال کے اندر کتنے افسران کے کتنے عرصے میں تبادلے ہوئے۔

کمیشن نے سیکریٹری ایس اینڈ جی ڈی سے دو سالہ رپورٹ طلب کرلی۔

کمیشن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ بدقسمتی ہے کہ جس افسر کو کمیشن کوئی کام سونپتا ہے، دوسرے دن اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے، کیا کمیشن سے کھیل کھیلا جارہا ہے؟

کمیشن نے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ افسران کے تبادلے کون کر رہا ہے؟

کمیشن نے سیکریٹری صحت سے مکالمہ کیا کہ مجھ سے وہ بات مت کہلوائیں جو میں کہنا نہیں چاہتا۔

جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم نے قرار دیا کہ محکمہ صحت سندھ کو تباہ کردیا گیا ہے۔

سرکاری اسپتالوں کے ترقیاتی منصوبوں پر پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی عدم تعیناتی پر کمیشن نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایک پروجیکٹ پر 8پروجیکٹ ڈائریکٹرز کے تبادلے کردیئے گئے۔

کمیشن نے سوال کیا کہ یہ تبادلے کون کرتا ہے، اس سے کس کو نقصان ہو رہا ہے، کسی کو کچھ اندازہ ہے؟ہر دو ماہ بعد اسپتالوں کے ایم ایس تبدیل کر دیتے ہیں۔

امیر ہانی مسلم نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ تبادلے جیبیں بھرنے کیلئے کئے جاتے ہیں؟

کمیشن نے محکمہ صحت میں تبادلوں پر ڈی جی ہیلتھ کو جھاڑ پلا تے ہوئے محکمہ صحت میں تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق سمری طلب کرلی۔

کمیشن نے سیکریٹری صحت کو حکم دیا کہ وہ لکھ کردیں کسی کا بلاجواز تبادلہ نہیں کریں گے۔

کمیشن کے سربراہ امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بیشتر پروجیکٹس اندرون سندھ میں ہیں اور اس کے افسران کراچی میں بیٹھتے ہیں، کوئی افسر ان پروجیکٹس کا دورہ کرنے نہیں جاتا، ظلم یہ بھی ہے کہ ڈاکٹروں کو پروجیکٹ ڈائریکٹر لگایا ہوا ہے۔

کمیشن نے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی میں کمی پر برہمی کا اظہار کیا،زیادہ تر اسپتالوں کا اسٹاف سرکاری ادویات باہر فروخت کردیتا ہے۔

سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے اعتراف کیا کہ ادویات کی چوری کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں۔

کمیشن نے سیکریٹری صحت سے سوال کیا کہ سندھ میں ایسا کونسا اسپتال ہے جس میں میں اور آپ اپنے کسی بیمار عزیز کو لے جا سکیں؟ کیا سول اسپتال کراچی میں لے جائیں گے؟

کمیشن کے سوال کے جواب میں سیکریٹری نے کہا کہ میں خود سول اسپتال میں ڈاکٹر ادیب رضوی کو دکھا چکا ہوں۔

اس پر کمیشن نے کہا کہ ادیب رضوی جو کام کررہے ہیں اس کی اللہ ہمیں بھی توفیق دے۔

کمیشن نے سوال کیا کہ لاڑکانہ اسپتال کو دیکھیں، چاروں طرف سیوریج کا پانی ہے، آدھے اسپتال میں جانے کیلئے کشتی لینی پڑتی ہے، کبھی یہ اسپتال گر جائے گا۔

کمیشن نے سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری صاحب کبھی آپ لاڑکانہ جاکردیکھیں تو رات کو نیند نہیں آئے گی۔

اس پر سیکریٹری صحت نے برجستہ جواب دیا کہ نیند تو ویسے ہی مجھے نہیں آتی،لاڑکانہ کے اسپتال کو 52کروڑ روپے دیئے ہیں، وہ کام نہیں کراتے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟

کمیشن نے کہا کہ پانچ سو کروڑ بھی ان کے پاس ہوں، ان کا کیا فائدہ؟ جب کسی غریب کا بھلا نہ ہوسکے۔

کمیشن نے سوال اٹھایا کہ اگر چیریٹی والے دس دن میں صاف پانی کا پلانٹ لگا سکتے ہیں تو حکومت یہ کام کیوں نہیں کرتی۔

کمیشن کے سربراہ امیر ہانی مسلم نے کہا کہ میں خود عوام کیلئے بھیک مانگوں گا اور اسپتالوں میں پانی کے پلانٹ لگواؤں گا۔

اس پر کمیشن نے پھر دہرایا کہ پتا نہیں آپ لوگ سوتے کیسے ہیں؟

جامشورو کے کینسر واڑد کا تذکرہ کرتے ہوئے امیر ہانی مسلم نے کہا کہ قسم کھا کر کہتا ہوں آپ وہاں سے گزر نہیں سکتے۔

کمیشن نے سیکریٹری صحت کو مخاطب کیا اور کہا کہ پیچوہو صاحب بہت تکلیف میں ہیں، پھر آپ کہتے ہیں کہ کمیشن کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔

امیر ہانی مسلم نے دلبرداشتہ لہجے میں کہا کہ مجھے مزید چھ مہینے برداشت کریں۔

اس پر سیکریٹری صحت نے کہا کہ میں چاہتا ہوں آپ ایک سال رہیں، ہم آپ کو چاہتے ہیں، آپ اچھا کام کر رہے ہیں۔

اس دوران سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم کی طرف بڑی چاہت کے اندازکہہ دیا کہ آئی لو یو سر، جس پر ایک بار پھر کمیشن کی کارروائی کے شرکاء نے قہقہے لگائے۔

اس پر کمیشن نے کہا کہ کچھ بھی بول دیں جب تک ہوں کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔

امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر کسی اسپتال تک صاف پانی پہنچا دیں گے تو دنیا میں جنت کمالیں گے۔

سیکریٹری صحت نے چھ مہینے کا وقت مانگا اور کہا کہ وہ سرکاری اسپتالوں میں صاف پانی فراہم کردیں گے۔

کراچی کے لیاری جنرل اسپتال کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن نے کہا کہ اسپتال کے گیٹ پر میڈیکل فضلہ پڑا ہے، اس گند پر کوئی کھڑا ہوتو بیمار ہوکر اسپتال میں داخل ہوجائے۔

اس پر سیکریٹری صحت نے جملہ کسا کہ سر آپ کہیں تو میں ویسے ہی بیمار ہوجاتا ہوں۔

سیکریٹری صحت نے کہا کہ مجھے تین مہینے کا وقت دیں سب بہتر ہوجائے گا، تین مہینے میں سب ٹھیک نہ کرسکا تو جو دل چاہے سزا دیے دیجئے گا۔

جس پر کمیشن نے کہا کہ لکھ کر دیں کہ محکمہ صحت میں تبادلے نہیں کیے جائیں گے۔