صعوبتوں میں بھی رشتے بناکے چلتے ہیں
ہم ایسے خاک نشیں سر اُٹھاکے چلتے ہیں
چراغ ہاتھ میں رکھتے نہیں اندھیرے میں
چراغ خود کو ہمیشہ بنا کے چلتے ہیں
وہ اور ہوں گے، جنہیں چاہیے تری قربت
ہم اپنے تن میں تجھی کو بسا کے چلتے ہیں
تمہیں کو مرکزِ قلب و نظر سمجھتے ہیں
تمہیں کو دل میں ہم اپنے بسا کے چلتے ہیں
ہمارے ساتھ دعائوں کا اک ہجوم سا ہے
قیامتوں سے قدم ہم ملا کے چلتے ہیں
دل و نظر پہ ہیں پہرے لگے ہزار مگر
تمام راہ کے پتھر اُٹھا کے چلتے ہیں
اگرچہ ربط و تعلق ہے ایک عرصے سے
مگر نظر وہ ہمیشہ چُرا کے چلتے ہیں
ہم اپنی راہ پہ چلتے ہیں کروفر سے رئیس
ہم اپنے خوابوں کو منزل بنا کے چلتے ہیں