سیاست میں جوتے اورکالک کاچلن بند کریں خصوصی تحریر…رضی الدین رضی

March 15, 2018

ورکرز کنونشن میں کارکنوں کی موجودگی میں کسی بھی سیاسی رہنما پر سیاہی پھینکنا بہت آسان ہوتا ہے خواہ وہ رہنما ملک کا وزیر خارجہ ہی کیوں نہ ہو اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے گڑھ، گڑھی شاہو میں واقع جامعہ نعیمیہ کی ایک تقریب کے دوران جوتا پھینکنا بھی بہت آسان ہے۔ بے شک وہ تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں اس کے لئے کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی بھی ضرورت نہیں۔ آپ کسی کے ساتھ بھی شرط لگا سکتے ہیں کہ ورکرز کنونشن میں آج فلاں لیڈر خطاب کرنے والے ہیں، میں ان کے چہرے پر سیاہی پھینک دوں گا۔ پانچ ہزار روپے کسی کی عزت کی قیمت تو نہیں ہوتی، لیکن پانچ ہزار روپے کی شرط جیت کر دنیا بھر میں پاکستانی سیاست کامنہ کالا تو کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جامعہ نعیمیہ میں بھی آسانی کے ساتھ سابق وزیر اعظم پر جوتا پھنکنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ کسی کو کوئی سازش بھی نظر نہیں آئے گی۔ نہ پی ٹی آئی پر الزام، نہ کسی اور مخالف پر دشنام۔ مدرسہ بھی وہ کہ جس کی نواز شریف خود سرپرستی کرتے رہے۔ ایسے کام تو کوئی معمولی سا اہلکار بھی کرا سکتا ہے۔ روز جلسوں میں عدالتوں کو برا بھلا کہنے والے کو عدالتیں بھلا کیوںسزا دیتیں؟ عوامی لیڈر کو سزا بھی عوامی انداز میں ملنا چاہئے تھی۔ منصوبہ بندی تو وہاں کرنا پڑتی ہے جہاں کسی مسلح جتھے کا کوئی سرغنہ خطاب کررہاہوتاہے اور جہاں کسی چڑیا کو پرمارنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ یا کوئی ایسی جگہ جہاں کوئی طاقت ور، یا کوئی بادشاہ دربار لگانے والا ہو۔ جناب اس علاقے کی تو ناکہ بندی کردی جاتی ہے۔ دوردور تک کوئی ذی روح نظر نہیں آتی۔ لوگ بھیڑ بکریوں اور جانوروں کی طرح رکاوٹوں سے سرپٹخ رہے ہوتے ہیں، مریض ایمبولینسوں میں مر رہے ہوتے ہیں۔ عورتیں سڑکوں پر بچے جنتی ہیں اور اس کے باوجود سب لوگ صبر شکر کر کے اپنے مالک کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔ قدم قدم پر عوام الناس کی تذلیل ہوتی ہے، ان کے منہ کالے کئے جاتے ہیں۔ ان کی چوراہوں اور ناکوں پر توہین ہوتی ہے، لیکن وہ اسے بھی اپنے گناہوں کی سزا سمجھ کر کوئی احتجاج کرنے کی بجائے صرف توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔ کسی طاقتور کی توہین کی تو وہ کبھی جرات ہی نہیں کرتے۔ ہاں البتہ ورکرز کنونشن میں اور جامعہ نعیمیہ میں کسی بھی لیڈر کی تضحیک بہت آسان ہے۔ یہ ایک سیاستدان کی تضحیک ہے۔ سیاست دان کو تو گالی بھی دی جاسکتی ہے حالانکہ کسی کو گالی دےکر اپنے اختلاف کسی کا اظہار کرنا جہالت ہی نہیں کم ظرفی بھی ہے۔ عدالت چونکہ بہت حساس ہوتی ہے اس لئے اسے برا بھلاکہنا اوراس کی توہین کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس جرم کی پاداش میں ہمیشہ کمزور لوگ ہی سزا پاتے ہیں۔ طاقت ور لوگ اگر ایساکریں تو کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیالکوٹ میں وزیرخارجہ خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکنے اور لاہور میں نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے واقعے پر ہرشخص اپنے ظرف کے مطابق تبصرہ کررہا ہے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ کچھ سیاسی کارکن ان سیاسی رہنمائوں کی توہین پر خوش ہیں جو آج کے بیانئے میں جمہوریت کی بات کر رہے ہیں۔ ان پر لوٹ مار کے الزامات بھی ہیں لیکن وہ ان قوتوں کے سامنے ڈٹ گئے ہیں جن کاانہیں آلہ کار سمجھا جاتا تھا۔ قارئین کرام، ہم جب ایک دوسرے کو عدم برداشت کا درس دیتے ہیں اور ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کااحترام کرنا چاہئے اور معاشرے میں رواداری کو فروغ دینا چاہئے تو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اپنے بہت سے روئیے ہمارے قول وفعل کا تضاد ظاہر کررہے ہیں۔ یہ رویئے سیاست میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب میں بھی، ادب میں بھی اور ایوان عدل میں بھی۔ یہ سب کچھ مل کر اس معاشرے کو سیاہی پھینکنے، جوتا مارنے اور توہین کرنے والے معاشرے میں تبدیل کررہاہے۔ہمیں یہاں احمد رضا قصوری سے لے کر ارباب غلام رحیم تک مشرف دور کے وہ تمام کردار یاد آ رہے ہیں جو اس زمانے میں جوتے اور سیاہی کا نشانہ بنے تھے۔ لیکن ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک ڈکٹیٹر کا ہاتھ مضبوط کر رہے تھے اورہاتھ بھی وہ جو لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اس سارے عمل پر جو جیسی بھی رائے دے لیکن ایک نکتے پر غور کرنا بہرحال ضروری ہے اور وہ یہ کہ سیاست دانوں کی توہین کےلئےہمیں ان کے چہروں پر با قاعدہ سیاہی پھینکنا پڑتی ہے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ ہمیں ان کے چہروں پر سیاہی پھینکنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ ان کی سیاہی ان کے چہروں پر پہلے ہی عیاں ہوتی ہے۔ سیالکوٹ اور لاہور کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گالی کے بعد سیاست میں جوتے اور کالک کا چلن عام ہونے والا ہے تاکہ نواز شریف اور ان کے ساتھی اسی طرح جلسوں اور انتخابی مہم سے دور ہو جائیں جیسے لوٹوں اور نعروں کے ذریعے جاوید ہاشمی کو انتخابی مہم سے دور کر دیا گیا تھا۔ آخری بات یہ کہ خواجہ آصف کے چہرے کوسیاہ کرنے والے نے دنیا بھر میں ہماری وزارت خارجہ کےچہرے کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے جبکہ جامعہ نعیمیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم نے نواز شریف پر جوتا پھینک کر یہ ثابت کیا ہے کہ اس نے چار سال کے دوران اس ادارے سے کچھ نہیں سیکھا۔