گیمز آف تھرونز سینیٹ سیزن

March 16, 2018

ملکہ سر سے لینسٹر سیلف میڈ نوجوان بیلش کی تعریف کرتی ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا اور کہتا ہے ’’چند لوگ ہی اس قدر خوش قسمت ہوتے ہیں کہ موزوں گھرانے میں پیدا ہوں جبکہ باقی سب کو اپنا مقدر خود سنوارنا پڑتا ہے۔‘‘دوران گفتگو یہ نوجوان پھیلتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ممتاز گھرانے بالعموم ایک سادہ سی حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں جسے میں نے پالیا ہے ‘‘ ملکہ سرسے لینسٹر اس حقیقت کے بارے میں استفسار کرتی ہے تو بیلش سینہ پھلا کر جواب دیتا ہے ’’نالج اِز پاور(علم طاقت ہے)‘‘ملکہ لینسٹر چند لمحوں کے توقف کے بعد اپنے محافظ دستے کو حکم دیتی ہے ’’پکڑ لو اسے اور مار ڈالو‘‘ مسلح محافظ بیلش کو جکڑ لیتے ہیں اور تیز دھار خنجر اس کے سینے میں پیوست ہوا ہی چاہتا ہے کہ ملکہ لینسٹر رعب دار آواز میں کہتی ہیں ’’ٹھہرو ،رُک جائو ،میرا ذہن بدل گیا ہے ،چھوڑ دو اسے جانے دو ،پیچھے ہٹو،گھوم جائو اور اپنی آنکھیں بند کرلو ‘‘محافظ پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو ملکہ لینسٹر اس احمق نوجوان سے مخاطب ہو کر کہتی ہے ـ’’پاور اِز پاور‘‘ (طاقت ،طاقت ہی ہوتی ہے )‘‘چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پہلے جب ہمارے بعض دوست یہ سچائی بیان کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ طاقت حق نہیں بلکہ حق طاقت ہے تو مجھے دنیا بھر میں دھوم مچادینے والے امریکی ڈرامہ سیریل ’’گیمز آف تھرونز ‘‘ کا یہ مکالمہ یاد آ رہا تھا ۔اور پھر ’’حقیقی گاڈ فادرز‘‘ نے ثابت کیا کہ طاقت ہی طاقت ہوتی ہے اور باقی سب کتابی باتیں ہیں ۔سچ پوچھیں تو مجھے بھی یہ خوش گمانی تھی کہ نوازشریف اینڈ کمپنی یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کیونکہ عددی برتری بہت واضح تھی ۔مسلم لیگ (ن) کے اپنے 32(سینیٹر اسحاق ڈار کا ایک ووٹ نکال کر )ووٹ تھے پی کے میپ کے5،نیشنل پارٹی کے 5،جے یو آئی (ف) کے 4 ووٹ ملائیں تو یہ تعداد 46بنتی ہے ۔بی این پی مینگل ،اے این پی کا ایک ایک ووٹ ،ایم کیو ایم فاروق ستار گروپ کا ایک ووٹ ،مسلم لیگ فنکشنل کا ایک ووٹ ،جماعت اسلامی کے 2ووٹ اور فاٹا کے 2سینیٹرز ملا کر یہ تعداد 54بنتی ہے جبکہ راجہ ظفر الحق کو 46ووٹ ملے ۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ حکومتی اتحاد کے علاوہ کسی نے راجہ ظفر الحق کو ووٹ نہیں دیا یا پھر ان کی اپنی ’’بکل میں چور‘‘ چھپے ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے ایک انتہائی سینئر رہنما جنہوں نے حکومتی اتحاد کی انتخابی مہم میں کلیدی کردار ادا کیا ،ان سے بات ہوئی تو یہ معلوم ہوا کہ اب تک کی تحقیق و تفتیش کے مطابق فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آنے والے مسلم لیگ (ن) کے دو سینیٹرز نے دغا کیا ،بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کلثوم پروین جنہوں نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا ووٹ سلیم مانڈوی والا کو دینے کا اعتراف کیا ،انہوں نے بھی فلور کراسنگ سے بچنے کے لئے راجہ ظفر الحق کو ووٹ دینے کا دعویٰ کیا وگرنہ حقیقت اس کے برعکس ہے ،جے یو آئی (ف) کے دو سینیٹرز جن میں سے ایک کا تعلق بلوچستان سے ہے اور دوسرے صاحب جن کی فیکٹری سے چند روز قبل ہیروئن بنانے کے لئے استعمال ہونے والا ممنوعہ مواد پکڑا گیا تھا ،انہوں نے حکومتی اتحاد کو ووٹ نہیں دیا ،مسلم لیگ (ن) کے ہی بعض دیگر سینیٹرز کے بھی قدم ڈگمگا گئے جن کے نام لینا مناسب نہیں ۔یوں حکومتی اتحاد عددی برتری کے باوجود مات کھا گیا اور صادق سنجرانی ہی نہیں سلیم مانڈوی والا بھی کامیاب ہو گئے ۔
چند روز قبل جب میڈیا میں پرویز رشید کا نام گونج رہا تھا تو میں نے 8مارچ کو شائع ہونے والے کالم میں بھی واضح کیا تھا کہ نوازشریف راجہ ظفر الحق کے نام پر غور کر رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پرویزرشید یا مشاہد اللہ خان کو امیدوار نامزد کرنے کی صورت میں انہیں شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرناپڑ سکتا تھا ۔نوازشریف اس الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کو ہر قیمت پر شکست دینا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ بنانے کی بات بھی کی لیکن نہ صرف پختونخواملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے مخالفت کی بلکہ بی این پی مینگل نے بھی ووٹ نہ دینے کی دھمکی دیدی ۔طے پایا کہ چیئرمین سینیٹ مسلم لیگ (ن) کا ہی ہو گا اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ پختوانخوا ملی عوامی پارٹی یا جے یو آئی میں سے کسی ایک کا ہو گا ۔انتخاب سے کچھ دیر قبل اتفاق نہ ہونے پر دونوں پارٹیوں کے درمیان فیصلہ ٹاس کے ذریعے کرنا پڑا۔اتوار کے دن تک نوازشریف مشاہد اللہ خان کو چیئرمین سینیٹ کا الیکشن لڑوانے پر یکسو تھے ۔یہاں تک کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب مشاہد اللہ خان کو یہ بھی کہہ دیا گیا کہ صبح جا کر کاغذات نامزدگی لے آئیں اور جمع کروائیں ۔پیر کی صبح جب مشاہد اللہ خان کاغذات نامزدگی لیکر جا رہے تھے تو انہیں یقین تھا کہ وہی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار ہیں لیکن انہوں نے محتاط گفتگو کرتے ہوئے محض یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ان کاغذات نامزدگی پر کس کا نام ہو گا یہ میاں نوازشریف طے کریں گے ۔اچانک نوازشریف کے اندر چھپا انقلابی لمبی تان کر سو گیا اور انہوں نے کسی مصلحت پسند سیاستدان کی طرح راجہ ظفر الحق کو امیدوار نامزد کر دیا ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انہیں سو فیصد یقین تھا کہ مسلم لیگ(ن) یہ بازی ہا رجائے گی اس لئے انہوں نے راجہ ظفر الحق کو امیدوار نامزد کیا لیکن میری معلومات یہ ہیں کہ نوازشریف نے جیت جانے کے لالچ میں یہ سمجھوتہ کیا ۔انہیں معلوم تھا کہ راجہ ظفر الحق اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام حلقوں کے لئے قابل قبول امیدوار ہیں اور انہیں امیدوار نامزد کرنے کی صورت میں صورتحال اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ والی ہو جائے گی اور جو لوگ مشاہد اللہ خان کے نام سے بدکتے ہیں ،وہ بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہوئے نہیں ڈگمگائیں گے ۔لیکن وہ شاید یہ بات بھول گئے کہ جب نئے چاق چوبند گھوڑے میدان میں ہوں تو پرانے گھوڑوں کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر نوازشریف راجہ ظفر الحق کو امیدوار نامزد کرکے مصلحت پسندی کا تاثر نہ دیتے اور بیشک ہار جاتے لیکن مشاہد اللہ خان کو ہی میدان میں اتارتے ۔
ہاں البتہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ۔گیمز آف تھرونز کے ہی ایک منظر میں ملکہ سرسے لینسٹر کہتی ہے ’’جب آپ گیمز آف تھرونز کا کھیل کھیلتے ہیں تو کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا۔ کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے یا پھر آپ زندہ نہیں رہتے ۔‘‘ونسٹن چرچل کے الفاظ مستعار لوں تو سیاست کا عمل بھی جنگ کی طرح ولولہ انگیز اور خطرناک ہے۔جنگ میں تو آپ ایک بار رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں کئی بار مرنا پڑتا ہے۔ہاں البتہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں طبعی موت مرتی ہیں ،انہیں کسی حادثے میں ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جائے تو امر ہو جاتی ہیں ۔جب طاقت کے زور پر کسی سیاسی جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ کینچوے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جسے 100ٹکڑوں میں بھی بانٹ دیا جائے تو ہر ٹکڑا علیحدہ کینچوا بن جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں حکمت عملی کے تحت بعض اوقات حالتِ خوابیدگی میں چلی جاتی ہیں اور حملہ آورسمجھتا ہے کہ قصہ تمام ہوا مگر حالات سازگار ہوتے ہی وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں ۔گیمز آف تھرونز کا سینیٹ سیزن تو تمام ہوا،اب دیکھئے جنرل الیکشن سیزن میں کیا ہوتا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں 00923004647998)