مختصر پُر اثر..

March 16, 2018

عرش کے سائے میں …!

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں ہوں گی، اسے اللہ تعالیٰ اس دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا،ایک تو ناگواری (سخت سردی ،نیند کے غلبے)کی حالت میں وضو کرنا،دوسری چیز اندھیروں میں مسجد کی طرف جانا اور تیسری بھوکے کو کھانا کھلانا‘‘۔(مستدرک حاکم)

دعوت و تبلیغ :ایک دینی و اجتماعی فریضہ

ارشادِ ربّانی ہے: ’’اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام انسانوں کے لیے خوش خبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔‘‘(سورۂسبا )پوری کائنات اور عالمِ انسانیت کو آپ ﷺ کے ابدی اور مثالی پیغام کا مخاطب اور آپﷺ کی دعوت وتبلیغ کے زیرِ اثر بھیجے جانے کے حوالے سے ارشاد ہوا’’برکت والا ہے وہ پروردگار ، جس نے حق وباطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندے (محمدﷺ )پر نازل کی، تاکہ وہ دنیا جہاں کے لیے ہوشیار وآگاہ کرنے والا ہو۔‘‘(سورۃ الفرقان)

دعوت و تبلیغ، اسلام کی ترویج و اشاعت، دین کی سربلندی اور اسلام کا پیغام عالمِ انسانیت تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرنا اور دین کی دعوت دینا اُمت کا دینی اور اجتماعی فریضہ ہے، جس کی فرضیت و اہمیت کسی دور میں کم نہیں ہوگی۔

یہ دین کا وہ پیغام ہے جسے عام کرنا، انسانیت تک اسے پہنچانا، ہر انسانی ذہن کو مخاطب بنانا اور ہر دل پر دستک دینا، دعوت و تبلیغ کی ذمے داری کو حکمت و بصیرت سے انجام دینا ایک اجتماعی فریضہ ہے۔

تبلیغ کا لفظی معنیٰ اور مفہوم پہنچانا ہے،اصطلاحاً اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اچھائی اور خوبی اور بالخصوص دینی امور کو دوسرے افراد و اقوام تک پہنچایا جائے اور انہیں قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔

تبلیغ ایک ایسا عمل ہے، جس میں کسی نصب العین کی طرف اخلاص سے بلایا جاتا ہے،اس نصب العین سے اختلاف و انحراف کے نقصانات و خطرات سے ڈرایا جاتا ہے اور غفلت و نسیان کے پردوں کو چاک کرکے اصل نصب العین کو یاد دلانے کے لیے نصیحت کی جاتی ہے۔

اس سے بھی وسیع مفہوم میں تبلیغ مذہب کا ایسا پرچار ہے، جس کا مقصد لوگوں کو حلقۂ مذہب میں شامل کرنا ہو۔ تبلیغ و دعوت دین کسی فرد اور قوم کے لیے زندگی کی علامت ہے، تبلیغ کے بغیر انفرادی تشخص کا برقرار رہنا ناممکن ہے۔

تبلیغ کے دو دائرے ہیں، ایک دائرے میں یہ کسی قوم کے افراد کو اندرونی بگاڑ سے بچانے کا ذریعہ ہے اور دوسرے دائرے میں عام انسانوں کو کسی خاص نظریے اور نظام کا قائل کرنا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ تحفظ ہے تو دوسرے لحاظ سے توسیع۔ تبلیغ کسی فرد اور قوم کا اندرونی داعیہ ہے، جس کے تحت وہ دوسروں کو اپنی بات منوانے کی سعی و جہد کرتا ہے۔ دنیا کے تمام مصلحین و بانیانِ مذاہب اسی داعیہ کے تحت فریضۂ تبلیغ انجام دیتے ہیں۔

اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حق و صداقت کی آواز کو عام کیا جائے اور فساد کو دُور کیا جائے۔دین وہ الہامی ضابطۂ حیات ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے کسی برگزیدہ اور منتخب بندے (نبی اور رسول) کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جسمانی ربوبیت کے لیے اس دنیا میں ہر قسم کی چیزیں پیدا کی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رُوحانی ربوبیت کے لیے اس دنیا میں سلسلۂ انبیاء جاری کیا۔

انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ اور بندے کے تعلق کو توحید، رسالت، اور آخرت کے عقائد کی بنیادوں پر استوار کرائیں اور دعوتِ دین اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے تاریخ کی روش کو موڑ دیں اور الہامی ہدایت کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر کریں۔