قارئین کیا سوچتے ہیں

March 20, 2018

حامد میر (19مارچ2018) 2023 ء کا پاکستان

٭حامد میر صاحب میں آپ کی رائے سے متفق ہوں کہ اگر پاکستان میں الیکشن بر وقت ہوتے رہے تو انشاء اللہ پاکستان میں معاشی سیاسی اور سماجی استحکام آ جائے گا لیکن آپ ان موجودہ حکمرانوں کو خداراہ سمجھائیں کہ پاکستان کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے نہ دبائیں۔ (سید زعفران گیلانی ،ایبٹ آباد)

٭ہمیں جن سیاستدانوں نے ترقیاں دی ہیں وہ برائے نام ہیں۔ اصل جمہور کی ترقی تو ان کی ترجیحات ہی نہیں ہیں۔ بڑی بڑی سڑکیں تو نظر آتی ہیں لیکن ان سڑکوں پر سوئے بے گھر لوگ نظر نہیں آتے۔ اور ایسے جمہوریت پسند ہیں کہ اپنے بعد اپنی نسلوں کو ہم پر حاکم بنانے کے راستے بنا رہے ہیں۔ اگر انہی کی اولادیں ہمیں ایسی ترقیوں کے خواب دیں گے تو 2023تو کیا 2050 میں بھی یہ عوام بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کا رونا رو رہے ہوں گے۔(نپولین ذکی، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

٭حامد میر صاحب آپ کا کالم اچھا ہے لیکن آج کے کالم کی اک بات کا انداز مناسب نہیں۔ بغیر دلیل پیش کئے کوئی بات نہیں کرناچاہیے۔ مثلاً تینوں سیاسی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں اس کے بارے میں کم از کم ایک دو مثالیں ضرور پیش کرنا چاہئے تھیں۔(رانا عثمان علی خان)

بلال غوری (19مارچ2018) پشاور میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ

٭اس تفصیل سے جوبات سامنے آرہی ہے کہ پورا پشاور ایک عجوبہ کے طور پر رکھا جانے والا شہر بن جائیگا اور آئندہ رنگ روڈ کے اس پاس شہر میں سیر کرانے والے گا ئیڈ موجود ہونگے جو زائرین کو عجوبہ کے مختلف جگہوں کی نشان دہی کروایا کریں۔(محمد شریف،اسلام آباد)

٭جناب بلال غوری صاحب آپ نے بہت متوان کالم لکھا ہے او بی آر ٹی منصوبے کا بہت خوب تجزیہ کیا ہے کیونکہ ابھی تک کسی نے اس طرف دھیان نہیں کیا ہےمگر میرا خیال ہے کہ ارب ڈالر کی جگہ ’’ارب روپے کر دیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا۔(محمد منش،امریکہ)

٭جناب غوری صاحب بات یہ ہے کہ جو کام ہوا ہوتا ہے وہ نظر آتا ہے اور جو نظر آتا ہے اسی بنیاد پر عوام ووٹ دیتے ہیں لہٰذا یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ کس نے بہتر کام کیا اور کسے ووٹ دینا چاہئے(اعظم علی،بارسلونا)