بدتہذیبی کی حوصلہ افزائی کب تک؟

March 22, 2018

عصر حاضر کی تہذیبی ترقی کسی ایک فرد یا کسی ایک برس کا کرشمہ نہیں یہ صدیوں پر محیط اُس انسانی جدوجہد کا ثمر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ بلاشبہ آج کی تہذیبی عظمت کا سب سے بڑا کریڈٹ قدیم یونانی فلسفیوں کو جاتا ہے لیکن دنیا کی تمام قدیمی تہذیبوں نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ہمارے یہاں تہذیب اور ثقافت کے جوہری فرق کو بالعموم سمجھا نہیں جاتا یا انجانے میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ کلچر تو افریقی جنگلات میں بسنے والے گنوار یا غیر مہذب قبائل کا بھی ہوتا ہے لیکن اس کلچر میں جو سائنٹفک اور شعوری ترقی ہوتی ہے اُسے ہم تہذیب یا سولائزیشن کہہ سکتے ہیں جس کے مختلف مدارج ہیں۔ کوئی فرد، سماج یا قوم جتنے بہتر شعوری درجے پر فائز ہوں گے اتنے ہی مہذب کہلانے کے حق دار ہوں گے۔ مکارمِ اخلاق کیا ہے؟ یہ تہذیبی ترقی کا ہی نام ہے۔ ہمارے پیغمبرؐ نے ماورائی بیان میں یہ تو فرما دیا کہ دین کی تکمیل کر دی گئی ہے لیکن مکارمِ اخلاق (تہذیبی بلندی) جاری و ساری عمل ہے اور اسے اپنی بعثت کی وجہ قرار دیا۔
آج اقوامِ عالم کے بالمقابل جب ہم اپنی مسلمان قوم کے مکارمِ اخلاق یا اخلاقی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ شاید ہم پیچھے رہ جانے والوں میں مقامِ بلند پر فائز ہیں۔ جوتے دیگر اقوام میں بھی چلتے ہوں گے لیکن اس بدتہذیبی کو جس طرح فخریہ پیشکش بنا کر ہمارے مقدس حلقوں میں پیش کیا جاتا ہے اس کی مثالیں دیگر اقوام کے پاس شاذو نادر ہی ہوں گی۔ تین مرتبہ اس قوم کے منتخب کردہ وزیراعظم مہذب اور شریف انسان پر جوتا پھینکنے والا نعروں کے ساتھ یوں ناچ رہا تھا جیسے اُس نے اپنے تئیں سومنات کا مندر گرا دیا ہو۔ کچھ عرصہ قبل نارووال کے عوامی اجتماع میں یہ حرکت وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے ساتھ بھی ہو چکی ہے۔ سیالکوٹ میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کے چہرے پر تو باقاعدہ سیاہی پھینکی گئی اور ایک مخصوص پریشر گروپ کے ورکرز نے سوشل میڈیا پر داد و تحسین کے خوب ڈنکے بجائے۔ جوتے پھینکنے والوں کی جیسی ذہنی حالت ہے انہوں نے ویسی ہی حرکت کرنا تھا شکر کریں کہ اُن کے ہاتھوں میں گولیاں نہیں تھیں محض جوتے یا سیاہی تھی۔ لہٰذا قابلِ توجہ اصل ایشو اس ذہنی حالت کی تبدیلی و درستی ہے لیکن جہاں ایسے ذہنی معذروں کو قابلِ تکریم لیڈر بنا کر پیش کیا جاتا ہو وہاں اصلاحی کاوشیں کتنی مشکل ہیں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
ان دنوں ایسی ہی معذوریوں کے ساتھ ہمارے دو ڈاکٹر صاحبان نیوز میکر بنے ہوئے ہیں۔ وہ تو ماشاء اللہ اتنی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں کہ ادھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے بھائی کی مہاجرت سے نکلے تو بہنوئی کے انصار ہوگئے۔ کسی زمانے کے علما فرمایا کرتے تھے کہ ہم جو کرتے ہیں اُسے مت دیکھو ہم جو کہتے ہیں اُسے ملاحظہ کرو انہیں دیکھ کر نہ جانے کیوں ہمیں مولانا کوثر نیازی یاد آجاتے ہیں لیکن صلاحیتوں میں وہ بھی شاید ان سے کہیں پیچھے تھے۔ وہ جب بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ گویا اُن سے بڑا صادق و امین تو ان کا عزیز بشریٰ باجی کا نیا خاوند یا سابق کھلاڑی بھی نہ ہو گا۔
ہمارے دوسرے ڈاکٹر صاحب بھی صلاحیتوں میں شاید اوّل الذکر سے کم ہوں مگر پُرخلوص پروپیگنڈہ مہم میں کسی طرح بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ موصوف جب چاہیں فضاؤں میں پہاڑوں جیسے مضبوط کنکریٹ کے قلعے تعمیر کر سکتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے متعلق شبلی نے کیا خوب کہا تھا کہ ظالم گپ بھی اتنے اعتماد سے لگاتا ہے کہ وحی کا گمان ہوتا ہے۔ شامی صاحب ایک دن صحافیوں کی محفل میں فرما رہے تھے کہ یہ ڈی این اے ٹیسٹ جیسی جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے جس نے عمران نقشبندی جیسے نعت خواں کو معصوم بچیوں کا ریپسٹ اور قاتل ثابت کر دیا ورنہ آپ لوگوں نے ملزم کی صفائی میں کھڑے ہو کر کہہ رہے ہونا تھا کہ اتنا نیک اور دینی بچہ تو ایسی مکروہ حرکت کر ہی نہیں سکتا۔
حیرت تو یہ ہے کہ اس قدر حقائق سامنے آنے کے بعد بھی ایسے راسخ العقیدہ صاحبان کی کمی نہ تھی جو ملزمان کو بچانے کے لیے دور دور کی کوڑیاں لارہے ہوتے۔ عمران نقشبندی بیچارہ تو کوئی چیز ہی نہیں وہ تو بس استعمال ہوا ہے بہت بڑے گینگ اور مافیا کے ہاتھوں اس کے ڈالروں اور یوروز میں 37اکاؤنٹس برآمد ہو گئے ہیں ثبوت میرے ہاتھ آ چکے ہیں جو میں سپریم کورٹ میں پیش کرنے جا رہا ہوں۔ چاہے مجھے پھانسی دے دی جائے مگر میں اپنے اس اٹل موقف سے ہٹوں گا نہیں۔ وہی مجرم جس کی سزائے موت کے خلاف اپیل بھی ہائیکورٹ سے خارج ہو چکی ہے جس کی ذہنی، سماجی اور معاشی حالت سب کے سامنے ہے مگر یہ آج معافی اور رحم کی اپیلیں کرتے اپنے آپ کو جھوٹا قرار دے رہے تھے۔
افسوس کس کس کا رونا روئیں آخر ہم میں تہذیب کب آئے گی؟ ہماری ساری رعایتیں آئین شکنوں کے لیے یا اُن کے کاسہ لیسوں اور سوسائٹی میں انتشار و ہیجان پھیلانے والوں کے لیے ہی کیوں وقف ہو کر رہ گئی ہیں۔ کیا انسانی تکریم کا اولین تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم عوام کو عزت دیں، حکومتیں بنانے یا ہٹانے کا اختیار صرف اور صرف ہمارے عوام کو ہونا چاہیے۔ غیر منتخب افراد اور اداروں کو منتخب پارلیمنٹ کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہو جانا چاہیے۔ جب آئینی تقاضوں کی مطابقت میں کسی منصب پر بیٹھے ہیں تو پھر آئین و قانون ہی آپ کا اوڑہنا بچھونا ہونا چاہیے۔ یہی تہذیبی و شعوری عظمت ہے۔ براہ کرم نئی نسلوں کو اس کی مطابقت میں ڈھالنے کے لیے اپنے تعلیمی سلیبس کو اسی مناسبت سے بدلیں۔ صرف اسی سے نیا وژن تشکیل پا سکتا ہے ورنہ سب نعرے ڈھکوسلے اور اقتدار حاصل کرنے کے ہتھکنڈے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)