ہمت لازوال ہے

April 01, 2018

پہلی بار کسی پاکستانی وزیر اعظم نے زنجیرِعدل ہلائی۔ پہلے یہ کام صرف اپوزیشن کیا کرتی تھی ۔خیر اللہ بھلا کرے قاضی القضاۃ کا ، جنہوں نے تقریباً دوگھنٹے اُس فریادی کی فریاد سنی جس نے ایک مخصوص عدالتی فیصلےکو ڈسٹ بن میں پھینک دینے کا نعرہ لگایا تھا ۔وہ فریادی وزیراعظم ناکام و نامراد واپس آیا اور سر ِعام اپنا زخمِ جگر چھیل چھیل کہنے لگا’’نیب عدالتوں سےہمیں انصاف کی کوئی امید نہیں انہی عدالتوںنے ہمیں ہائی جیکر بنایا تھا‘‘۔کوئی بتائےکہ حاکم ِ وقت کے مالک ومربی کے ساتھ نیب کے ججوں کی کونسی دشمنی ہے ۔دونوں میں کونسی زمینوں کی سانجھ ہےجس نے راہ ِانصاف میں بیریئر کھڑے کر دئیے ہیں سوچتا ہوں زمینوں کی سانجھ نہ سہی زمین کی سانجھ ضرور ہے اور اُس سر زمین کا نام پاکستان ہے ۔اُس کی سانجھی پگڈنڈی پرایک جنگ ضرور جاری ہے ۔ سچائی کی جاگیر کی جنگ ۔اس جنگ میں ایک طرف وطن میں لوٹ مارکر کےدیارِ غیر کے بینک بھرنے والے صاحبان ِعزو جاہ ہیں تو دوسری طرف وطن کے سفید پوش محافظ ۔ یہ جنگ کئی محاذوں پر لڑی جارہی ہے ۔۔کوئی محاذ انصاف گاہوں میں گرم ہے تو کوئی مقام ِ ِلوح و قلم پر۔کہیں بندوقوں والے سرحدوں پر مورچہ بند ہیں توکہیں نظریاتی لکیروں کے سپاہی سینہ سپرہیں ۔
یہ تبدیلی کیسے آئی ۔یہی عدلیہ بھی موجود تھی ۔یہی میڈیا بھی تھا ۔یہی صف شکن بھی تھے مگر ا مید کے افق پر سیاہیاں جھلملا رہی تھیں ۔سورج نے اپنے چہرے پر کالک تھوپ لی تھی ۔گلستانوں نے خزاں کا لباس پہن لیا تھا۔بہاریں سرحدوں پر روک لی گئی تھیں ۔اِس روشنی اور خوشبو بھری تبدیلی کا سبب صرف ایک ہی آدمی ہے ۔وہ جس کا نام عمران خان ہے ۔وہ جواٹھارہ انیس سال پہلے اپنے ہاتھ میں انصاف کا پرچم تھام کر سٹرک پر نکل آیا تھا۔صرف چند آدمیوں کے ساتھ ۔پھر وہ چند لوگ ہجوم میں بدل گئے اور پھر رفتہ رفتہ ساری قوم اُس کی آواز پر لبیک کہنے لگی ۔عمران خان جب شوکت خانم کینسراسپتال بنانے کےلئے قریہ قریہ بستی بستی گئے توانہیں احساس ہوا کہ جسمانی کینسر کے ساتھ ساتھ کرپشن کے کینسر نے بھی اِس قوم کا بند بند مضمحل کر رکھا ہے ۔ظلم اور زیادتی معاشرہ کی نس نس میں رچ بس گئی ہے ۔یہ نوے کی دہائی کا وہی زمانہ تھا جب پاکستان سے سرمایہ باہر منتقل کیا جارہا تھا ۔ کک بیکس سے یورپ میں جائیدادیں بنائی جارہی تھیں ۔ یہ عمران خان کی دوراندیشی تھی کہ انہوں نے آج اٹھارہ بیس سال پہلے کرپشن کے خلاف علم ِ جہاد بلند کردیا تھا ۔یہ کریڈٹ بھی عمران خان کو ہی جاتا ہے کہ اُس نے دہشت گردی اور معیشت کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا ۔ہمیں اُسی نے بتایا کہ سرمایہ اور بدامنی کا کیا رشتہ ہے ۔کراچی کی صورتحال پرجس وقت بڑے بڑے شیر چوہے بنے ہوئے تھے ،خود کو مہا سیاست دان سمجھنے والے بھی خاموش تھے ،کوئی نہیں بول رہا تھا ۔اُس وقت عمران خان کی آواز سنائی دی تھی ۔صرف وہی ایک اُس کے خلاف بولا تھاجو کراچی میں ساری بدامنی کا ذمہ دار تھا ۔پاکستان کی معاشی شہ رگ کوظالم کے جبڑوں سے نکالنے کےلئے کوئی اورسامنے نہیں آیا تھا۔
عمران خان نے ہی پہلی مرتبہ دھاندلی کے چہرے کو مکمل طور پربے نقاب کیا ،پیچاری پیپلز پارٹی تو وائٹ پیپر شائع کر کے گزارہ کیاکرتی تھی ۔الیکشن کمیشن کی کوتاہیاں اُسی سے سامنے آئیں ۔ووٹ کے ساتھ ہونے والی بدعنوانی کے چہرے سے پردہ اُسی نے نوچا۔مسلسل جدوجہد کی اورمافیا کے کرداروں کو پس ِ منظر سے منظر میں کھینچ لیا۔اُسی نے پہلی مرتبہ قوم کو بتایا کہ اس کے ساتھ کہاں کہاں فراڈ ہورہا ہے ۔وہ وقت کون بھول سکتا ہے جب بڑے بڑوں کو مافیا نگل لیتا تھا۔ابھی کل ہی کی بات ہے جب سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تھا مگر آج سپریم کورٹ کی طرف اٹھنے والی انگلی بھی لرزتی ہوئی نظر آتی ہےکہ عمران خان پوری قوم کے ساتھ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہے ۔بزدل یاد رکھیں کہ ایسی کسی بھی جسارت کا مقدر پسپائی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
عمران خان نے قوم کو شعور دیا ہے ۔سوئی ہوئی قوم کو جگایا ہے ۔رہی بات وزیر اعظم کی تو وہ خود کہتے ہیں کہ میں اصلی وزیر اعظم نہیں ہوں ،اصلی وزیر اعظم تو نواز شریف ہیں ۔اصلی کا الٹ تو نقلی ہوتا ہے ۔جسے عدالت عظمیٰ نے کہہ دیا کہ وہ صادق و امین نہیں اُسے کوئی اصلی وزیر اعظم کیسے اپنا وزیر اعظم کہہ سکتا ہے۔فلوطینس نے کہا تھا جس نے انصاف کااحترام نہیں کیا اُس کی قسمت میں شکست کے سوا کچھ اور نہیں ۔
میں اس وقت جنوبی پنجاب میں ہوں ۔صبح کاذب صبح صادق میں ڈھل رہی ہے ۔ ڈیرہ غازی خان کی مسجدیں نمازیوں کو بلا رہی ہیں ۔دورکہیں صحرا میں آک کا کویا پھٹا ہے ۔ زندگی جاگی ہے ۔ہوا بیج سمیت اُس کے نرم ریشے اٹھا کر پھیلتی چلی جارہی ہے ۔آک کےسینکڑوں ہزاروں پودے پیدا ہونے والے ہیں ۔سچائی کو اب کوئی نہیں روک سکتا ۔سچائی کی صبح ہونے والی ہے ۔انصاف کا بول بالا ہونے والا ہے ۔ فریادی سرائیکی علاقے کا کوئی سردار ہو یا سرمایہ دار ۔ نیب کےپر کاٹنے والوں کی اپنی پروازیں ختم ہونے والی ہیں ۔بھلے کسی کے اپنے جہاز ہی کیوں نہ ہوں ۔انہیں کرپشن کی ہر پرواز کا حساب دینا پڑے گا ۔ مشرق ِ وسطی سے لے کرمغرب تک پہنچتی ہوئی ساری پروازوں کا حساب ، مکمل حساب ۔ڈیرہ غازی خان میں یہ حساب مانگنے کےلئے ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ راستے میں کھڑی ہیں ۔ظلم کے سامنے دیوار بن کر ۔اُن کی ’’ہمت ‘‘ لازوال ہے ۔ان کا ’’قلم ‘‘ بے مثال ہے ۔ اُن کی ’’سیاست ‘‘جھوٹ سے مبرا ہے ۔ایسے کھلاڑیوں کی ٹیم جمع کرنے پر کپتان کو ہزار بار مبارک باد۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)