سائنسی تعلیم اور ترقی

April 08, 2018

سائنس کی اہمیت سے موجودہ دور میں انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ صبح کی بیداری سے لیکر رات دوبارہ بستر پر جانے تک ہماری زندگی کا ہر فعل اور زیر استعمال تقریباً ہر چیز سائنس کی مرہون منت ہے۔ جن اقوام کو ہم آج ترقی کی سیڑھی پر سب سے اوپر دیکھتے ہیں وہ سائنس کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے ہی اس مقام تک پہنچی ہیں۔

سائنس کی ترقی دنوں یا مہینوں پر محیط نہیں ہوتی۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ بازار سے خرید لی جائے یا کسی دوسرے ملک سے درآمد کرلی جائے، بلکہ سائنس کی ترقی کیلئے سائنسی معاشرے کی تشکیل بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر کوئی سائنسی انداز میں سوچتا ہو اور جہاں مسائل کے حل سائنسی بنیادوں پر ترتیب دیئے جاتے ہوں۔

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے، لیکن یہاں سائنس کے فروغ کی کوششیں بہت محدود نظر آتی ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو کہیں بھی کوئی مؤثر اور جامع کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ چاہے مغلیہ دور ہو یا فرنگی، اس خطے میں دیگر معاشرتی علوم کی طرف توجہ تو دی گئی لیکن سائنسی علوم کی جانب دھیان انتہائی کم رہا۔ یہاں تک کہ سائنسی علوم کی تعلیم کیلئے بھی کوئی قابل ذکر ادارہ کا وجود نظر نہیں آتا۔

قیام پاکستان کے وقت اس خطہ پاک سر زمین میں سائنس و ٹیکنالوجی کے تعلیمی و تحقیقی اداروں کی کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا اور چند اداروں کی داغ بیل ڈالی گئی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ چہ جائیکہ ان اداوں کی تعداد و معیار میں اضافہ کیا جاتا، الٹا ان کی تعداد بتدریج کم ہوتی چلی گئی اور معیار بھی گرتا چلا گیا۔ نتیجے کے طور پر آج ہمارے ارد گرد سائنس و ٹیکنالوجی کے تعلیمی و تحقیقی اداروں کے وہ اعداد و شمار نہیں ہیں جو ترقی پزیر قوم کی بہتری کا سبب بن سکے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں سائنسی تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن ان کی مثال ویسی ہی ہے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے تعلیمی و تحقیقی اداروں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتظامی و معاشرتی علوم سے فارغ التحصیل طلبہ دوسروں کے محتاج رہتے ہیں، لیکن سائنسی و تکنیکی علوم کے حامل طلباء کے ہاتھ میں ہنر ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ وہ اپنے لئے ذریعہ معاش کا معقول بندوبست کرسکتے ہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی وسیلہ بن جاتے ہیں، لیکن اس کا مقصد دیگر علوم کی اہمیت کو کم کرنا ہرگز نہیں۔

سائنسی و تکنیکی تعلیمی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سائنسی علوم کی بنیاد منظق اور مشق پر رکھی جاتی ہے۔ لہٰذا منطقی استدلال کو جب تجربہ کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے تو وجود میں آنے والا علم فطرت کے قریب ترین ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسے علوم حتمی یا الہامی نہیں ہوتے، لیکن انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں اور انہیں تبدیل کرنے کیلئے ان سے بڑھ کر منطق اور مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔

سائنس و تکنیک کی فطرت سے ہم آہنگی کا سبب بذات خود فطرت کا منطقی ہونا ہے۔ ہم اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ہر فطری فعل ایک جامع نظام کا حصہ ہے۔ چاند سورج کی گردش کا نظام ہو یا انسانی جسم کی پیچیدہ بناوٹ، دریاؤں کا بہنا ہو یا موسموں کا تغیر، ہر حرکت ایک منظم انداز رکھتی ہے۔

سائنسی و تکنیکی علوم کی فطرت سے ہم آہنگی معاشرے کی ترقی کا سبب بنتی ہے، کیونکہ معاشرہ فرد سے بنتا ہے۔ جب فرد خوشحال ہوگا تو معاشرہ ترقی کرے گا، اور معاشرے کی ترقی دراصل ملک کی ترقی بن جاتی ہے۔ لہٰذا ملک کی ترقی کیلئے سائنسی و تکنیکی علوم کی ترویج انتہائی ضروری ہے۔

جدید تعلیم اور سوشل سائنسز کے علوم کو ہمارے ملک میں الگ الگ پڑھایا جاتا ہے یہاں تک کہ ہمارے یہاں بورڈز بھی مختلف ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یونیسیف کے اعلان کے مطابق سب سے بہترین تعلیم کیوبا میں دی جاتی ہے جہاں طالب علموں کو جدید علوم سے رغبت پیدا کروائی جاتی ہے اور تخلیقی سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے۔ پانچ سال سے آٹھ سال تک موسیقی اور جمناسٹک کی تربیت دی جاتی ہے اور اس کے بعد اُس کا ذہنی میلان جانچا جاتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے لیکن اُس کا اصلی ذہنی میلان دسویں کے بعد کیا جاتا ہے۔

البتہ پاکستان میں بچے کے میلان سے زیادہ والدین کی خواہش پر بچے کو تعلیم حاصل کرنی ہوتی ہے اور وہ بھی ایسی جو فقط روزگار کی نیت سے حاصل کی گئی ہو۔ اس لئے وہ ایک اچھا ملازم تو شائد بن جائے پر اچھا انسان نہیں بن پاتا ہے۔ اس کی وجہ سوشل سائنسز کا نصاب اچھا نہ ہونا ہے جس کا از سر نو جائزہ و تشکیل کی جائے تو اچھا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں زیادہ سے زیادہ انجینئرز پیدا کرنے ہونگے اور اس کے لئے بچوں کو بہت کم عمر میں ہی جدت سے متعارف کروانا ہوگا۔