وقت نہیں، ہم بدل گئے ہیں

April 11, 2018

عبد الرحمان آفتاب

جہاں نظر دوڑائیں نفسانفسی دکھائی دیتی ہے، کوئی شخص بھی اپنے حال سے خوش نہیں ، آگے سے آگے کی جستجو نے انسان کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے، نہ ذہنی سکون ہے اور نہ ہی جسمانی، بس ایک ہی بات کی لگن ہے کہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرلے،اس طلب نے ہر آدمی کو مشین کا پہیہ بنا کر رکھ دیا ہے جو گھومتا ہی رہتا ہے۔ اس گھومنے کے چکر میں نہ دین کی خبر ہے اور نہ دنیا کی۔ بس اپنے آسائش و آرام کو پورا کرنے کی فکر لگی رہتی ہے ،اپنی خواہشات کو کم کرنے کے لیے کوئی بھی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ان خواہشوں کو پورا کرتے کرتے چاہے بندہ خود اگلے جہاں کیوں نہ چلا جائے، ایسے لوگوں سے اگر پوچھا جائے کہ آپ دن رات اپنی ہمت سے بڑھ کر اتنا کام کیوں کرتے ہیں،اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تو ہے آپ کے پاس پھر بھی آپ اپنے حالات سے مطمئن نہیں ، نہ اپنی صحت کی فکر ہے ،نہ اہل و عیال کے لیے وقت ہے اور نہ عزیز و اقارب سے ملنے کی فرصت ، اتنا سب کچھ آپ کس کے لیے کر رہے ہیں تو ان کا جواب ہو گا کہ بھئی یہ وقت کی ضرورت ہے جو ہم کو پہیے کی طرح گھما رہا ہے۔

دنیا والوں کے ساتھ چلنا پڑتا ہے،اگر ہم وقت کے ساتھ نہیں چلیں گے تو دوسروں سے بہت پیچھے رہ جائیں گے اور پیچھے رہ جانے والوں کو کوئی بھی مڑ کر نہیں دیکھتا، آگے بڑھنے والے کے سب ساتھی ہوتے ہیں،اس لیے وقت کے ساتھ چلنا ضروری ہو گیا ہے۔

جتنی تیزی سے وقت بدل رہا ہے اتنی ہی تیزی سے ہماری زندگی کے معیار بدل رہے ہیں، شاید اگر وقت کی رفتار کم ہوتی تو ہمارے معیار زندگی بھی کم ہوتے۔ ہم اگر وقت کے ساتھ نہیں چلتے تو لوگ باتیں بناتے ہیں کہ فلاں آدمی کو تو کچھ پتا ہی نہیں وہ ابھی تک اسی پرانی ڈگر پر چل رہا ہےاور وقت کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے،اتنی پرانی سوچ کے لوگوں سے کون میل جول رکھے، اب آپ ہی بتائیں کیا وقت کے مطابق نہیں چلنا چاہیے؟ جی بالکل چلنا چاہیے لیکن ایک بات یہ بھی سمجھ لیں کہ وقت اپنی رفتار کے مطابق چل رہا ہے، جیسے پہلے دن سے چل رہا تھا۔ آج بھی وہ اس مدار میں گھوم رہا ہے ،جس مدار میں کل گھوم رہا تھا اور آنے والے کل میں بھی یوں ہی گھومے گا۔

یہ کوئی موٹر کار کی اسپیڈ تو ہے نہیں، جس کو اپنی مرضی سے کم یا زیادہ کر لیا جائے، درحقیقت بدل ہم لوگ گئے ہیں اور الزام وقت کو دیتے ہیں کہ بدل گیا ہے۔ تبدیلی تو ہمارے طرز زندگی میں آ گئی ہے، اپنی تہذیب، ثقافت، رسم و رواج کو چھوڑ رہے ہیں اور جدیدیت کے رنگ میں ڈھل رہے ہیں۔ پہلے ہم لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے لیکن آج کے انسان کے پاس وقت ہی نہیں دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہونے کا۔

پہلے لوگ سادہ اور ہر بناوٹ سے عاری تھے، اب تو لہجوں میں اتنی بناوٹ ہے کہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ بندہ کہیں اظہار ہمدردی کے بجائے طنز تو نہیں کر رہا، اس میں کس کا قصور ہے ہمارا یا پھر وقت کا؟

قصور ہمارا اپنا ہے، جو دن بدن زنگ آلود ہوتے جا رہے ہیں ظاہری اور باطنی طور سے آگے سے آگے بڑھنے کی جستجو نے ہمارے دل مردہ کر دیے ہیں اور پھر بار بار کہتے ہیں وقت بدل گیا ہے۔ وقت تو وہی ہے جو خالق کائنات نے روز اول بنایا وہی دن سے رات، رات سے دن کا سفر، وہی سورج کا طلوع و غروب ہونا، وہی چاند کی چاندنی کا رات کی تایکی میں روشنی بکھیرنا۔

پرندوں کا رزق کی تلاش میں دن بھر ایک شاخ سے دوسری شاخ پر منڈلانا اور پھر شام کے سائے پھیلنے تک اپنے گھونسلوں کی جانب رخ کرنا بھی وہی ہے جو پہلے دن سے تھا ہم لوگ تو ان پرندوں سے بھی گئے گزرے ہو گئے ہیں جو اپنی پہچان ہی بھول گئے ہیں اور وقت کے بدلنے کا رونا روتے ہیں۔