ماحول میں کشیدگی قبائلی دشمنیوں کا رنگ اختیار کررہی ہے

April 17, 2018

اسلام آباد( محمدصالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) ارزوئے آئین قومی اسمبلی میں قائد ایوان جو بلحاظ منصب ملک کے وزیراعظم ہیں قائد حزب اختلاف سے صلاح مشورہ کرکے آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کےلئے نگران وزیراعظم کا تقرر کریں گے تقریباً اسی طرح کا انتظام و انصرام صوبوں میں وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے قائد حزب اختلاف کے ساتھ طے کرنے کے مکلف ہیں اب جبکہ حکومت کا دورانیہ تمام ہونے میں ڈیڑھ ماہ سے بھی کم مدت باقی رہ گئی ہے سیاسی ماحول میں کشیدگی قبائلی دشمنیوں کا رنگ اختیار کررہی ہے۔ مختلف سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بے دھڑک تہدید آمیز اور توہین پر مبنی زبان استعمال کررہے ہیں، بعض حالتوں میں یہ اختلاف رائے گالم گلوچ جیسی کیفیت میں سامنے آتا ہے وفاق میں پاکستان مسلم لیگ نون کے وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی کے قائد حزب اختلاف کے ساتھ مل کر طے کرنا ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہوگا؟ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے مسلم لیگ نون کے وزیراعلیٰ کو تحریک انصاف کے قائد حزب اختلاف کے ساتھ یہ معاملہ طے کرنا ہوگا ،سندھ میں پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ کے سامنے ایم کیو ایم پاکستان کے قائد حزب اختلاف مشاورت کی میز پر متمکن ہونگے ، خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کا وزیراعلیٰ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی، ایف) کے قائد حزب اختلاف کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھے ہونگے۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے وزیراعلیٰ جمعیت علمائے اسلام کے قائد حزب اختلاف کے روبر ہونگے۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ نون ، پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام اوربلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان وفاقی اور صوبوں کی نگران حکومتوں کا معاملہ زیر غور رہے گا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے حلقہ اختیار میں اپنی حلیف جماعتوں سے بھی مشاورت کرنا ہوگی لیکن یہ رضا کارانہ عمل ہوگا جس کی آئینی پابندی موجود نہیں، پردہ سیمیں پر پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن درون خانہ دونوں کے درمیان مضبوط گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے جس کی دستاویزی شہادت بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق کی سطح پر پیپلز پارٹی کا کسی ایک نام پر حکمران پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ متفق ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحریک انصاف بھی اس سے اتفاق کرلے، پنجاب میں یہی فارمولا کار فرما ہوگا، دوسرے صوبوں میں الگ نوع کی صف بندی ہوگی لیکن وہاں بھی حکومت اور حزب اختلاف کا مناقشہ کافی شدید ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان پائی جانے والی مفاہمت اب کوئی سربستہ راز نہیں رہی، وہ اور ان کے مربی کسی طور پر بھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ وہ ایسی نگران انتظامیہ کے بارے میں متفق ہوجائیں جسے حکومت نے تجویز کیا ہو۔