عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر پابندی، نواز،مریم،وزیراعظم اور دیگر کا توہین آمیز مواد روکا جائے

April 17, 2018

لاہور (نمائندہ جنگ) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےمیاں نواز شریف،انکی صاحبزادی مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی کیلئے دائر درخواستوں پر پیمراکو حکم دیا ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز سمیت لیگی رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر کیخلاف درخواستوں کا 15روز کے اندر فیصلہ کرے اور اس دوران اس بات کو سختی سے یقینی بنایا جائے کہ عدلیہ مخالف اور تضحیک آمیز تقاریر سمیت توہین عدالت پر مبنی کوئی بھی مواد نشر نہ ہو۔ دوران سماعت جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ فیئر تنقید کا آئینی حق قانون و ضابطے سے مشروط ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہر کوئی عدالتی فیصلوں کو نشانہ بنائے، عوامی نمائندے اسمبلی میں جج پر تنقید نہیں کر سکتے تو جلسے میں کیسے ہو سکتی ہے، ایگزیکٹو ممبرپیمرانے جسٹس مظاہر نقوی کے استفسار پر بتایا کہ توہین آمیز تقاریر رُکوا سکتے ہیں، جبکہ پیمرا کے وکیل نے اعتراف کیا کہ عدلیہ سے رہنمائی کا مراسلہ غلطی ہے،دوران سماعت وزیر اعظم کے مشیر اور وکلاء کا بنچ کیساتھ سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ فل بنچ نے بنچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی بنچ میں شمولیت کیخلاف میاں نواز شریف کی درخواست مسترد کر دی۔ میاں نواز شریف مریم نواز، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر لیگی رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر کیخلاف اظہر صدیق اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی دو درجن سے زیادہ درخواستوں پر فل بنچ نے سماعت کی۔درخواست گزاروں کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ عدلیہ مخالف تقاریر پر متعدد درخواستیں دائرکر رکھی ہیں اور ان تقاریر کیخلاف پیمرا سے بھی رجوع کیا گیا ہے لیکن پیمرا نے عدلیہ مخالف تقاریر پر کوئی کارروائی نہیں کی ۔اظہر صدیق نے موقف اختیار کیاکہ نواز شریف اور مریم نواز سمیت16حکومتی شخصیات عدلیہ مخالف تقاریر کررہے ہیں لیکن پیمرا کوئی کارروائی نہیں کر رہی پیمرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئےکہ پیمرا قانون کے تحت اقدامات کررہا ہے جو درخواستیں آئی ہیں ان میں سے بعض تکنیکی بنیادوں پر مسترد ہوچکی ہیں ۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ بظاہر آپ نے عدلیہ مخالف تقاریر کی اجازت دیدی؟سلمان اکرم راجہ نے کہا ایسا نہیں ہے۔دوران سماعت نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر نے فل بنچ کی کارروائی روکنے کی استدعا کی جس پر بنچ کے سربراہی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ تشریف رکھیں، آپکی باری آئیگی تو آپ کو بھی سنا جائیگا۔ درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ پیمرا اتھارٹی ریگولیٹر کی بجائے حکومتی نوکر بن کر کام کرتی رہی ہے۔جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ فیئر تنقید کا آئینی حق کسی قانون و ضابطے سے مشروط ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر کوئی اٹھ کر عدالتی معاملات اور فیصلوں کو فیئر تنقید کے نام پر تنقید کا نشانہ بنائے۔ کوئی وکیل یا ماہر بات کرے تو سمجھ بھی آتی ہے لیکن ہر کسی کو اسکی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دوران سماعت وزیر اعظم کے مشیر نصیر بھٹہ اور لیگی وزراء کے وکلاء کا بنچ کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اور نواز شریف سمیت لیگی وزراء کے وکلاء نے بنچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر پر اعتراض بھی اٹھایا۔نصیر بھٹہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں فل بنچ پر اعتراض ہے، ہم یہاں کیس نہیں سنوانا چاہتے ۔وزیر اعظم کے مشیر نصیر بھٹہ ایڈووکیٹ نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس ہائیکورٹ میں 48 جج بیٹھے ہیں، آپ ہی کیوں اس مقدمے کو سن رہے ہیں؟جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ کیا اب آپکی مرضی اور حکم کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ بنائے جائینگے؟۔پیمرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان درخواستوں پر پیمرا کو حکم جاری کرنے دیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ 8 ماہ گزرنے کے باوجود پیمرا نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی نواز شریف کیخلاف اسی نوعیت کی درخواستیں دائر ہوئی تھیں اور سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی ان درخواستوں کو مسترد کیا تھا ۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پیمرا کے ایگزیکٹو ممبر سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ توہین آمیز تقاریر رکوا سکتے ہیں ؟ جس پر ایگزیکٹو ممبر نے جواب دیا کہ یہ ہم رُکوا سکتے ہیں۔عدالت نے فریقین کے ابتدائی دلائل مکمل ہونے کے بعد نواز شریف سمیت 14 لیگی رہنمائوں کیخلاف توہین عدالت کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئےعدلیہ مخالف تقاریر سمیت ہر قسم کا توہین عدالت پر مبنی مواد نشر کرنے سےروکنے کا حکم دے دیا اور پیمرا کو حکم دیا کہ عدلیہ مخالف تقاریر روکنے کے خلاف درخواستوں پر 15 روز میں فیصلہ کیا جائے۔ سماعت کے آغاز پر اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے غیراعلانیہ طور پر عدلیہ مخالف تقاریر کی اجازت دیئے رکھی،ابصار عالم عدلیہ مخالف مہم میں حکومتی منصوبے کا حصہ بنے رہے۔ فل بنچ کے رکن جسٹس مسعود جہانگیر نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کو کیس کے مرکزی حصے تک محدود رہنے کی ہدایت کی۔ اظہر صدیق نے کہا کہ عدلیہ مخالف تقاریر پر متعدد درخواستیں دائر کیں، پیمرا سے بھی رجوع کیا۔ پیمرا نے درخواستیں دینے کے باوجود عدلیہ مخالف تقاریر پر کوئی کارروائی نہیں کی ،پیمرا اتھارٹی ریگولیٹر نہیں بلکہ حکومتی نوکر بن کر کام کرتا رہا ۔سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم شریف خاندان کے گھریلو نوکر سے بھی زیادہ وفادار بنے رہے،عدلیہ مخالف تقاریر کا معاملہ دبانے کیلئے وزارت اطلاعات و نشریات سے رہنمائی مانگی گئی، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے عدلیہ مخالف تقاریر پر کارروائی کرنے سے پیمرا کو روکدیا،میرا کام عدلیہ مخالف تقاریر کا معاملہ ریکارڈ پر لانا ہے، پیمرا آرڈیننس میں آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق ہے آئین کے آرٹیکل 19 اے میں فیئر تنقید کا حق دیا گیا ہے۔ جسٹس مظاہر نے کہا کہ فیئر تنقید کا آئینی حق کسی قانون و ضابطے سے مشروط ہے،کوئی وکیل یا ماہر بات کرے تو سمجھ بھی آتی ہے لیکن ہر کسی کو اسکی اجازت نہیں دی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 19 اے کے علاوہ آرٹیکل 68 بھی پڑھ کر سنائیں۔اظہر صدیق نے کہا کہ آرٹیکل 68 میں تو یہاں تک پابندی ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں اور معاملات پر پارلیمنٹ میں بھی بات نہیں ہو سکتی،نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے دوبارہ فل بنچ کی کارروائی میں مداخلت کی اور کہا کہ درخواست گزار کے دلائل عدالت کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہیں ۔بنچ کے رکن جسٹس عاطر محمود نے کہا کہ ڈوگر صاحب، آپ اس کیس میں ابھی فریق نہیں بنے، نہ ہی آپکو نوٹس ہوا ہے ۔اے کے ڈوگر نے کہا کہ یہ مفاد عامہ اور قومی سطح کا کیس ہے، وقت کے ضیاع کی نشاندہی کرنا بطور وکیل میری ذمہ داری ہے جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ عدالت نے اپنی مرضی سے چلنا ہے، آپکی نشاندہی سے نہیں چلنا،عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے آپ تشریف رکھیں، جب آپکی باری آئےتو آپ کو موقع دینگے،فل بنچ کی ہدایت پر نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر دوبارہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ پیمرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیمرا کی اتھارٹی پر غیرضروری اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں پیمرا نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدلیہ مخالف تقاریر کیخلاف درخواست پر فیصلہ دیا ۔