یکجہتی چاہئے نہ مدد!

April 22, 2018

ارشاد خداوندی ہے کہ عدل کرو ۔عدل تقویٰ کے قریب ہے ،روز حشر جب کسی کی مجال نہ ہوگی کہ خداوندکریم کی اجازت کے بغیر لب کشائی کرسکے ۔عادل حاکم کو رب ذوالجلال کے سائے میں پناہ ملے گی۔عدل کی بہترین مثال جناب نبی مکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے روشن کردار سے مزین کیا جاسکتا ہے۔حکومت کے ایک اہم ستون عدلیہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں عدلیہ میں ایماندار لوگ میسر آئے ہیں۔ سپریم کور ٹ آف پاکستان کی عمارت میں بیٹھے ہوئے یہ 17لوگ بے کس اور لاچار لوگوں کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے منصف مسند پر ایسے مزین ہوئے کہ اپنے تو اپنے اغیار بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ آج یہ لوگ رہیں یا نہ رہیں مگرعدالتی نظام کو اتنا مضبوط بنا چکے ہیں کہ وہ اپنی جگہ پر پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رہے گا۔عدالتی فیصلے عوامی ملکیت ہوتے ہیں۔ان پر مثبت تنقیدکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مگر پہلی مرتبہ تمام اداروں کو واضح پیغام دیا گیا کہ سپریم کورٹ کا حکم ماننا تمام اداروں کا فرض اور آئینی ذمہ داری ہے۔آج مملکت خداداد میں رہنے والی یہ عظیم قوم جس کو جناب بابائے قوم نے قابل فخر شناخت دی،اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہے کہ اسے ایک ایساعدالتی نظام میسر ہے ۔جہاں حق داروں کو حق لینے میں دشواری نہیں۔نامساعد حالات کے باوجود یہ درویش صفت منصف اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ان پر عزم ججوں کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو من مانی کو اپنا شعار سمجھتے تھے،سوچنے پر مجبور ہوئے کہ غریب کی داد رسی ابھی بھی اس ملک میں ممکن ہے۔کسی حکیم کا قول ہے کہ اگر تم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوگے تو تمہارا شمار ظالم کا ہاتھ روکنے والوں میں ہوگا۔حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ شریف وہ ہے جو مظلوم کے ساتھ انصاف کرے۔ گزشتہ کئی عرصے سے سپریم کورٹ آف پاکستان ازخود نوٹس لینے میں محتاط ضرور تھی،مگر جہاں پر بھی غریب عوام کے حقوق کی بات ہوئی،وہاں پر نوٹس لیا گیا۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہاں ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ نے ایسے روشن ستارے پیدا کئے جو ہمیں دنیا کی مہذب اقوام کے مقابلے میں سر فخر سے اٹھانے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔انہی ججوں میں خواجہ احسان ،عبدالحمید خٹک،بلوچستان کے محمد اشرف ،عدلیہ کے نامی گرامی ججوں میں جسٹس اختر حسن،حفیظ چیمہ،اوصاف خان ،جناب جسٹس کیانی،جسٹس ظفراللہ،جسٹس کارنیلیس،جسٹس راجہ فیاض اور دیگر نظر آتے ہیں۔ معاشرے کبھی بھی تباہی کی طرف نہیں جاتے،جب تک وہاں پر عدل قائم ہو۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے بہت سے فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ان فیصلوں پر تعمیر ی تنقید کرنا بطور پاکستان کے شہری میرا حق ہے۔آئین مجھے آزادی اظہار کا حق دیتا ہے۔مگر ہماری تنقید جب حد سے بڑھ جائے اور اداروں کی بنیادوں کو کمزور کرنا شروع کردے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔سویلین بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی کا قائل ہوں۔جمہوریت ہمیشہ قائم رہنی چاہئےمگر قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی بالادستی کے بغیر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔کسی جج کے آنے یا جانے،کسی وزیر اعظم کے رہنے یا نہ رہنے،کسی جنرل کے ریٹائر ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،فرق تب پڑتا ہے جب ادارے پر تنقید ہوتی ہے۔امریکا جیسی مضبوط جمہوریت میں جہاں پر ایک پولیس چیف بھی منتخب ہوکر آتا ہے۔وہاں پر عدالت نے ایک فیصلے سے صدر کو عہدے سے دور کردیا مگر ادارے پر تنقید نہیں کی گئی۔دنیا بھر میں کہیں بھی عدلیہ پر تنقید نہیں کی جاتی۔چرچل جیسے جرنیل نے بھی اپنے ماتحت کو کہا تھا کہ جب تک برطانیہ میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں،جرمن فوجیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔عدالتی فیصلوں سے اختلاف ہو تو اسے برداشت کرتے ہوئے انصاف کی تگ و دو جاری رکھنی چاہئے۔اگر آج انصاف نہیں ملے گا تو کوئی نہ کوئی پیچھے آنے والا انصاف ضرور دے گا۔لیکن اگر آپ ادارے کو ہی تباہ کردیں گے تو پھر انصاف کے لئے دستک کہاں دیں گے۔ملک میں عدلیہ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہوگی تو انارکی پیدا نہیں ہوگی۔ماضی میں اسی سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاپتہ کیسز میں ایک ادارے کے خلاف سخت ترین فیصلے کئے۔22لاپتہ کا مشہور کیس مجھے آج بھی یاد ہے۔جس میں رات آٹھ بجے ہم شاہراہ دستور پر کورٹ روم نمبر 1میں بیٹھے ہوئے تھے اور سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اگر لاپتہ افراد کو پیش نہ کیا گیا تو پھر ہم توہین عدالت کا حکم جاری کریں گے۔اس کے علاوہ بھی اس ادارے کے خلاف بہت سے فیصلے آئے مگر کبھی بھی سپریم کورٹ آف پاکستان جیسے معتبر ادارے پر تنقید نہیں کی گئی۔فیصل رضاعابدی پر تو میں بات ہی نہیں کرنا چاہتا مگر مجھے قصور واقعہ کی ویڈیو دیکھ پر بہت تکلیف پہنچی ہے۔اسی پر شاید شاعر نے کہا تھا کہ
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے
کسی پر تنقید کرنا بہت آسان ہے مگر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ساکھ کا یہ عالم ہے کہ آج سے چھ سال قبل ملک کی موجود ہ اعلیٰ عدلیہ کے ایک اہم ستون کے پاس ہمارے ایک دوست سینئر قانون دان تشریف لے گئے۔اس وقت وہ لاہور ہائیکورٹ میں سینئر ترین جج تھے۔انہوںنے انہیں وفاقی حکومت کی طرف سے پیغام دیا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ خواجہ شریف کو ہٹا کر آپ کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ لگادیا جائے۔انہوں نے مسکراتے ہوئے ہمارے دوست کو چائے پیش کی اور کہا کہ تمہارا اور میرا پرانا تعلق ہے۔مگر بات یہ ہے کہ صوبے میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے بڑی کوئی پوزیشن بھی نہیں ہے مگر میں بے اصولی کرکے یہ عہدہ نہیں لینا چاہتا اور میں اپنے چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم کی پابندی کروں گا۔ان شخصیت کا نام لینا نا مناسب ہے مگر جو شخص اتنی بڑی آفر ٹھکرا دے اور قانون کی بالادستی کی بات کرے ۔آج صرف اس وجہ سے اس پر تنقید کی جارہی ہے کہ وہ بنیادی حقوق کے تحفظ کا عزم کئے ہوئے ہے۔حالات و اقعات جو بھی ہوں ،ہمیں اعلیٰ عدلیہ کا دل سے احترام کرنا چاہئےاور ایسا کوئی بھی اقدام نہیں کرنا چاہئے ،جس سے معزز ادارے کی بنیادیں کمزور ہوں۔وہ شخص تو نہ آپ سے یکجہتی چاہتا ہے اور نہ کسی قسم کی مدد کا طلبگا رہے۔وہ تو صرف قانون کی حکمرانی کا علم اٹھائے ہوئے ہے۔مضبوط عدلیہ ہی ترقی یافتہ پاکستان کی ضمانت ہوسکتی ہے۔
کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ
ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ
اے میرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے میری دستار کے ساتھ
وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں
کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)