دانش کٹہرے میں

April 29, 2018

پاکستان کے تمام ہی سول ادارے اطمینان بخش خدمات انجام دیتے کچھ اور کئی دو اڑھائی عشرے سے زوال پذیر ہوتے اپنا تشخص کھوتے متنازعہ ہوتے گئے۔ اب غیر معمولی ملکی صورتحال، جو اصل میں مملکت پر خدا کی کرم نوازی ہے کہ یکے بعد دیگرے اجڑے اور بدنامی کماتے عوامی خدمات کے یہ ادارے درست سمت میں کروٹ لے رہے ہیں۔جہاں تک افواج پاکستان کا تعلق ہے بلاشبہ یہ ابتدا سے ہی انتہائی منظم، پیشہ ور اور قومی سوچ و جذبے سے سرشار رہی ۔کسی بھی کامیاب فوج کی طرح اس کا مطلوبہ پوٹینشل کبھی کم نہیں ہوا، بلکہ اس کو دنیا کی چوٹی کی بڑی ہی نہیں معیاری فوج کے طور پر تسلیم کیا گیا اور آج بھی یہ ہی صورت ہے۔ باوجود اس کے کہ قیام پاکستان کے بعد آزاد قوم کی پہلی نسل تازہ دم و تازہ ذہن تھی ۔لیکن نئے صاحبان اقتدار نے حکام اور عوام میں ،عوام کو رعایا جانتے ہوئے فاصلے قائم رکھنے اور بڑھانے کی ذہنیت جاری رکھی ۔ایسی صورت میں نئی مملکت کی اولین ضرورت آئین سازی اور اس کا جلد سے جلد اور مکمل اطلاق تھا۔یہ ہوتا تو لازم ہوتا کہ نومولود مملکت میں عوام دوست قانون سازی عوام کے حقیقی نمائندوں کے ہاتھوں میں ہوتی ۔قانون سختی سے اور سب شہریوں پر یکساں نافذ ہوتا تو (بحرانی کیفیت میں بھی بڑی کامیابیاں سمیٹتا) پاکستان آج ایشیا اور مسلم دنیا کے لئے یقیناً ترقی و فلاح کی مثال ریاست ہوتا جیسے اب ترکی اور ملائیشیا بنے ۔ابتدا سے پیدا ہوئے سلامتی کے تقاضے پورے کرتے سفارت کاری کی مہارت، اقتصادی استحکام کی اختراعی پنجسالہ منصوبہ بندی، زرعی اور صنعتی انقلاب نہ سہی لیکن تیز تر ترقی کی نمو، عالمی کھیلوں میں نمایاں مقام، ہوائی سفر، ڈاک اور ریلوے سفر کی خدمات کے کامیاب ترین ادارے بنانے اور موجود کو بخوبی سنبھالنے اور بڑھانے بطور ٹاپ ٹیکسٹائل کنٹری، نئی پیشہ ورانہ اور بڑی پبلک یونیورسٹیاں بنانے اور پہلی چلانے ، علاقائی اور عالمی سیاست میں پاکستان کی سرگرمی، انجینئرنگ اور میڈیکل ایسے پیشوں میں عالمی شہرت حاصل کرنا، ترقی پذیر اقوام میں قائدانہ صلاحیتوں کی حامل قوم کی زندہ علامتیں تھیں۔
وائے بدنصیبی قائد کی اتنی جلد جدائی اور پہلے ہی وزیراعظم کی شہادت کے بعد ملک جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل سیاستدانوں اور انتظامی امور کے فرنگی دور کے تربیت یافتہ سرکاری بابوئوں نےجس طرح راج کی لیگیسی کو برقرار رکھ کر امور مملکت چلائے اور اقتدار کاکھیل کھیلا، اس نے پھر قدرتاً زیادہ طاقت ور ادارے کے طور پر سول سیٹ اپ پر بھی غالب ہونے کاخناس حرارکی میں پیدا کیا۔ جس کے بعد جملہ پیچیدگیوں کاایک طویل سلسلہ شروع ہو کر سقوط ِ ڈھاکہ کی تاریخ کے آرکی ٹیکٹ ہمارے سول اور فوجی دونوں قائدین خود بنے۔
سنبھلے توپہلی کامیابی ملک کے متفقہ آئین کی صورت میں ہوئی جس کے نفاذ سے آج تک اس کی سنگین خلاف ورزیوں اور مسلسل حلیہ بگاڑنے (بدست مقتدرہ) ہمیں اس موجودہ بگاڑ تک پہنچا یا جسے وکلا کی تحریک میں چیلنج کیا گیا اور معاملہ جسٹس افتخار چوہدری کے جیوڈیشل ایکٹوازم۔ ون اور موجود چیف جسٹس ثاقب نثار کے ٹو تک آ گیا۔ دونوں نے اپنا اپنا ماڈل قائم کیا، لیکن آئین و قانون کا سہارا لے کر۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ خدائی نزول پاناما لیکس نے بھی ٹاپ۔ڈائون احتسابی عمل کی انہونی کوہونی میں تبدیل کردیا اور نتیجہ خیز۔ یوں پاکستان کا تقاضوں کے مطابق بدلنا ٹھہرا ہی نہیں، پاکستان اب بدل رہاہے۔ نہ کسی فوجی نجات دہندہ کے ہاتھوں نہ کسی چالباز عوامی قائد کی شعبدے بازی سے۔ فوج دہشت گردی کی جنگ لڑتی لڑتی نئی کامیابیاں سمیٹتی آج پیشہ ورانہ طور پر دنیا میں مانی جارہی ہے۔ یہ ملک میں اب ’’سیاسی استحکام‘‘ کا نہیں بلکہ آئین و قانون اور جمہوریت کا بڑاسہارا سمجھی اور مانی جارہی ہے۔جوڈیشل ایکٹوازم ۔ ٹو اور پاناما لیکس کی تفتیش سے نیب میں پڑی زندگی اب تیزی سے اور مکمل بدلتے پاکستان کا پتا دے رہی ہے۔ عدلیہ نے جامد آئینی اختیارات کو حرکت میں لا کر وہ کام شروع کیاہے کہ لوگوں کو پہلی مرتبہ معلوم ہو رہا ہے کہ آئین جو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتاہے، وہ کیاہیں اور اگر حکام وہ غصب کرلیں عدلیہ ان کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے قانون کے اطلاق کو بمطابق آئین کس طرح بحال کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی اس عظیم کار خیر میں سرگرمی ملکی و قومی مفادات کے لئے جتنی اہم، آئینی اور قانونی ہے اتنی ہی عوام میں اعتماد کے اعتبار سے حساس بھی ہے۔ یہ احساس ان کے حال ہی میں پنجاب کی پبلک یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی میرٹ کے مطابق تقرری ہونے کے باوجود انہیں ٹینور نہ دینے یا دینے کے باوجود ان پر صوبائی انتظامیہ کی جملہ نوع کی مداخلت سے ہوا۔ وی سی صاحبان کے مسلسل دبائو میں رہنے کا فائدہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی ’’گروہی سیاست‘‘ میں اٹھانا اور وی سی شپ کے لئے ’’امیدواروں کی جائز و ناجائز تگ و دو‘‘۔ دو ایسی وجوہات ہیں جن کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ان سے جوڈیشل ایکٹو ازم کا رخ پنجاب یونیورسٹی سمیت صوبے کی تین اور پبلک یونیورسٹیز کی طرف مڑا۔ اس سے قبل ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر حکومتی دبائو کے اقدامات سے احتسابی عمل میں آ کر ہتھکڑی لگوا بیٹھے باوجود اس کے کہ وہ متحدہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کی یادگار اور علامت بھی ہیں، لیکن احتساب میں غیر ذمہ داری کے عنصر نے انہیں ہتھکڑی لگا دی۔ ہضم یوں ہو گیا کہ اہل دانش خود احتسابی عمل کے ووکل ایڈووکیٹ ہیں۔ اب پنجاب یونیورسٹی اور لاہور کی قدیم خاتون درس گاہ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے وائس چانسلرز دونوں، پنجاب کی وی سی سرچ کمیٹی کے ذریعے وی سی مقرر ہونے کے باوجود ’’میرٹ پر وی سی مقرر نہ ہونے‘‘ کے الزام میں کٹہرے میں پہنچے اور اب ایسے احتسابی عمل میں ہیں جس کا نقطہ آغاز واضح ہونا جاری عدالتی عمل کے اعتبار کے لئے لازم ہے۔ یہ ثابت کرنا بھی کہ ان کی تقرری جو حکومتی حربے کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے وی سی کی حد تک، ٹینور کے بغیر کی گئی قصہ یہ تھا کہ ان سے گرڈ اسٹیشن کے لئے یونیورسٹی کی اراضی لینی تھی۔ وی سی نے اپنے مطلوب اور قانونی کردار کے مطابق اسے یونیورسٹی کی فیصلہ اور پالیسی ساز باڈی سینڈیکیٹ کے حوالے کر دیا، اس روز لاہور ہائیکورٹ کے ممبر جج سینڈیکیٹ میں موجود نہ تھے، وہ ہوتے تو ان کی موجودگی میں قانونی پہلو کے حوالے سے رہنمائی ملتی۔ امید ہے چیف صاحب قانون کی روشنی میں اس امر کا جائزہ ضرور لیں گے کہ وی سی صاحبان کی تقرری میرٹ پر ہوئی یا نہیں؟ نیز یہ کہ پنجاب حکومت کے پاس تقرری کے بعد (اگر میرٹ پر ہوئی) انہیں ٹینور نہ دینے کا کیا جواز تھا؟ ایسے میں وی سی صاحبان کتنے پریشر میں رہتے ہیں سو حکومت جواب دے کہ وہ میرٹ پر تقرری کے بعد ٹینور دینے میں تاخیر کیوں کرتی ہے؟ اب جبکہ یونیورسٹی کی حساس قیادت کٹہروں میں آ کر خود ہی مستعفی ہو گئی یہ ثابت اور پھر واضح ہونا لازم ہے کہ غلط کہاں تھا؟
اساتذہ تو پہلے ہی نظر انداز طبقہ ہیں اپنے اپنے شعبے کے ماہرین اساتذہ کی لیاقت ثابت شدہ ہو کے ساتھ انصاف کے تمام تر تقاضے پورے ہونا ہی احتسابی عمل بذریعہ عدلیہ کے عوامی اعتماد کو آگے بڑھائے گا وگرنہ کیا ہماری حکومتیں، کیا سماج اور طاقتور طبقات یہ تو ابھی استاد سے بات کرنے کا ڈھنگ نہ سیکھ سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)