سوشل میڈیا ’’بہار‘‘ لے آیا

May 02, 2018

گزشتہ مضمون میں ہم نے آپ کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے آنے والے پہلے انقلاب کے بارے میں بتایا تھا کہ کس طرح تیونس کے تبدیلی پسند افراد نے ہمت و جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق کے لیے انقلاب کی آواز بلند کی اور 23 برس سے رائج آمرانہ راج کا تختہ الٹ دیا، لیکن آپ کو بتاتے چلیں کہ انقلاب کی یہ فضا، یہ لہر یں ابھی تھمی نہیں تھی کہ انقلاب کی ہوا نے تیونس کے بعد مصر کا رخ کر لیا اور وہاں بھی 30 برس سے رائج آمرانہ نظام ختم کرکے آزادی کی فضاء قائم کر دی۔

اس فضاء کے قیام میں بھی تیونس کی طرح سب سے اہم اور موثر ذریعہ و کردار سوشل میڈیا کا ہی رہا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے رواں ہفتے مصر اور پھر دیگر عرب ممالک میں آنے والے انقلابات، جسے ’’عرب اسپرنگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، کا مختصر احوال بیان کر رہے ہیں، کہ کیسے سوشل میڈیا کی طاقت کو درست انداز میں استعمال کرتے ہوئے ان ممالک کی اقوام نے اپنے حق کے لیے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ وہ اپنے عزائم میں کامیاب بھی ہوئے، گوکہ ان ممالک میں آج بھی معاشی اعتبار سے حالات ماضی سے کچھ مختلف تو نہیں ہیں، لیکن ایک چیز جو بدل چکی ہے، وہ آمرانہ نظام کا خاتمہ اور جمہوریت کا راج ہے۔

14 جنوری 2011ء کو جب تیونس میں آمرانہ راج کا تختہ الٹا تو اس پورے واقعے نے مصر کے عوام کو بھی تحریک دلائی کہ قوم کا اتحاد کسی بھی آمرانہ نظام سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، عرب ممالک جہاں سوشل میڈیا کا استعمال مغربی ممالک کی نسبتاً کم ہے، اس بات کا اندازہ یوں لگا لیجیے کہ 2011ء تک عرب ممالک میں صرف اکیس ملین فیس بُک صارفین تھے، پھر کیسے وہاں سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس نے ایسا موثر کردار ادا کیا کہ اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونماں ہوئیں۔

یہاں یہ واضح کر دیں کہ یہ انقلاب ایک دن میں نہیں آیا بلکہ اس کے لیے جدوجہد برسوں سے جاری تھی، لیکن محمد بوعزیزی کی دردناک موت نے اس جد و جہد کو نئی سمت دی۔ ہوا کچھ یوں کہ 6 جون 2010ء کو دو خفیہ پولیس اہل کاروں نے شک کی بنیاد پر مصر کے شہر الیگزینڈریہ کے مضافات میں واقع ’’سیدی جابر‘‘ کے کیفے سے منشیات فروشی کے الزام میں ایک نوجوان کو گرفتار کیا اور کیفے سے پولیس وین تک مارتے پیٹتے ہوئے لے گئے، پولیس اہل کاروں کی جانب سے بُری طرح تشدد کا نشانہ بننے کے باعث اس شخص کی جان چلی گئی۔

یہ شخص 28 سالہ ’’خالد محمد سعید‘‘ تھا۔ جو مصر میں ایک کمپیوٹر انجینئر تھا اور امریکا سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مصر میں ملازمت کر رہا تھا۔ اس پورے واقعے کے چشم دید گواہان وہاں موجود تمام افراد تھے، لیکن کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان پولیس اہل کاروں کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔ ایسے میں اسماء محفوظ وہ واحد خاتون تھی، جس نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور فیس بُک پیچ بنایا، مگر اس پیچ کو اُس وقت وہ اہمیت نہ مل سکی، جو ملنی چاہیے تھی۔ آمرانہ راج کے سائے تلے دبے مصر کے عوام اس واقعے پر خاموش رہے اور معاملہ دب گیا۔

مگر جب تیونس میں بےروزگاری و مہنگائی سے تنگ محمد بوعزیزی کے خودسوزی کا حادثہ پیش آیا، جس پر تیونس کے عوام نے ہمت و جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور انہیں اس کا صلہ بھی مل گیا، تو مصر کی عوام کو اس واقعے سے تحریک ملی، یہ دیکھتے ہوئے گوگل کے لیے کام کرنے والے، تیس سالہ مصر نژاد امریکی ’’وائل غنیم‘‘ نے ’’وی آر آل خالد سعید‘‘ نامی فیس بُک پیچ تشکیل دیا، جس کا مقصد خالد محمد سعید کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ مصر کے عوام نے ظلم کے خلاف بلند ہونے والی وائل غنیم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کے اس پیچ کو تیزی سے لائک اور شئیر کرنا شروع کردیا کہ، لمحہ بھر میں یہ پیچ نہ صرف مصر بلکہ عرب ممالک کے عوام کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

صرف تین دن میں ایک لاکھ سے زائد فیس بُک صارفین اس کے فالوارز بن گئے، چند دنوں میں اس پیچ کے تقریباً پانچ لاکھ فالوارز اور ساڑھے چار لاکھ اسی نام سے بنائے گئے گروپ کے ممبرز بن گئے۔ یوٹیوب پر خالد سعید کے قتل کی اپ لوڈ ہونے والی وڈیوز کو پانچ لاکھ سے زائد بار دیکھا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا صارفین کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ جو حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف ویب سائٹس پر احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے، نیز عوام پر ہونے پولیس اہل کاروں کے ظلم کو گرافک تصاویر اور کیپشنز کے ذریعے دنیا کے سامنے لا رہے تھے۔

یہاں یہ واضح کر دیں کہ جن دنوں تیونس میں انقلاب رونما ہو رہا تھا، اسی دوران وائل غنیم چھٹیاں منانے عرب امارت آئے ہوئے تھے، تیونس کے سیاسی حالات و انقلاب کے پیش نظر انہوں نے یہ پیچ بنایا، مگر یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کا پیچ صرف مصر ہی نہیں بلکہ دیگر عرب ممالک کے عوام کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، تو وہ قاہرہ پہنچ گئے۔ لیکن ان کے قاہرہ پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد ہی مصر کی پولیس نے انہیں بناء کسی جرم کے خفیہ طور پر گرفتار کر لیا۔ وائل کی اچانک گم شدگی کے باعث عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، مصر کے عوام جانتے تھے کہ، وائل کی گمشدگی کے پیچھے حکومتِ مصر کا ہی ہاتھ ہے، اس لیے مختلف مہم کے ذریعے حکومت پر وائل کی بازیابی کے لیے دباؤ ڈالا گیا، تقریباً گیارہ دن خفیہ مقام پر زیر حراست رکھنے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا، بعدازاں انہوں نے 25 جنوری 2011 کو حکومت کے آمرانہ راج اور پولیس کے بہیمانہ ظلم، کرپشن، بے روزگاری، کم تنخواہیں اور بڑھتی ہوئی منگائی کے خلاف ریلی نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ اور (I am participating in January Revolution) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹ اور پوسٹ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے 25 جنوری کا انتخاب اس لیے کیا، کیوں کہ اس دن مصر میں پولیس اہل کاروں کی جرات اور بہادری کو خراج تحیسن پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دن 1952 کے واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ وائل غنیم کی اس مہم میں اسماء محفوظ نے بھی ان کا ساتھ دیا۔

انہوں نے اپنے بلاگز، ویبلاگ، اور وڈیوز کے ذریعے عوام تک پیغام پہنچایا کہ وہ بڑی تعداد میں 25 جنوری کو پُر امن انداز میں قاہرہ، تحریر اسکوائر پہنچیں اور حکومت وقت کے خلاف آواز بلند کریں، اس وقت تک تحریر اسکوائر پر دھرنا دیں جب تک حسنی مبارک عہدہ نہ چھوڑ دیں۔ ان کا پیغام فیس بُک کے ذریعے 80 ہزار سے زائد افراد تک پہنچا اور مقرہ دن عوام کی جانب سے قاہرہ میں مرکزی ریلی، جب کہ دیگر شہروں میں چھوٹی بڑی پُر امن ریلیاں نکالی گئیں، قاہرہ سمیت دیگر شہروں میں ریلی نکالنے کا وقت، جگہ اور مقام فیس بُک گروپ کے ذریعے ہی طے کیا گیا۔

ان مظاہروں کی اہم بات یہ بھی تھی کہ مظاہرین پُر امن تھے، ان میں بڑی تعداد پڑھے لکھے نوجوان طلبہ، ڈاکٹرز، وکلا، فن کار اور صحافیوں پر مشتعمل تھی۔ جو تیونس کے انقلاب سے متاثر ہوکر ان ریلیوں میں شامل ہوئے تھے۔ دوسری جانب چند حکومتی حامیوں نے ان پر تشدد کیا، انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں تحریر اسکوائر پر تقریباً ڈیڑھ سو افراد جاں بحق، جب کہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

لیکن مظاہرین نے ہمت نہ ہاری، ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تصاویر اور وڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرتے رہے جس سے ان کی آواز دنیا بھر میں پھیل گئی۔ دو ہفتے اور تین دن بعد، 11 فروری 2011ء کو حسنی مبارک کو مجبوراً اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی، حسنی مبارک کے بعد وزیراعظم احمد نظیف اور احمد محمد شفیق زکی، کو بھی اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہونا پڑا، بعدازاں فوج نے کچھ عرصہ ملک کا نظم و ضبط سنبھالا۔ انتخابات کے بعد محمد مرسی بطور صدر منتخب ہوئے، لیکن مصر کے عوام نے ان کے خلاف بھی احتجاج کیا، جس کے باعث انہیں بھی عہدہ چھوڑنا پڑا، ان کے بعد جنرل عبد الفتح السیسی اقتدار میں آئے۔

مصر کے انقلاب سے متاثر ہوکر یمن کے دارالحکومت صنعاء میں بھی ہزاروں لوگوں نے حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف نعرے بازی کی، ان سے اقتدار چھوڑنے کو کہا اور خود سے انقلاب برپا کرنے کی بات کی۔ مظاہرین نے نعرہ بلند کیا کہ ’’عوام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، مصری انقلاب کے بعد اب یمن کا انقلاب‘‘۔ ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کے مطابق، حسنی مبارک کے استعفے کے بعد جب یمن میں بعض لوگوں نے جشن منانے کی کوشش کی تو حکومت نے دس افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن انقلاب کی لہر یہاں بھی رکی نہیں بلکہ اس کے بعد لیبیا، شام، بحرین، سودیہ، مراکش، اردن، اومان، الجزائر اور کویت بھی پہنچ گئی۔ جس نے وہاں کے عوام کو بھی ان کا بنیادی حق دلانے میں مدد فراہم کی۔ ان ممالک میں بھی سوشل میڈیا نے وہی نمایاں کردار ادا کیا جو تیونس اور مصر میں کیا تھا۔

لیکن چند ممالک میں حکومت کے حامی افراد نے مختلف افواہیں پھیلائیں تاکہ مظاہرین کی توجہ دوسری جانب مبذول کروا سکیں لیکن سوشل میڈیا کے باعث افواہوں نے جلد دم توڑ دیا، کیوں کہ سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر بذریعہ وڈیوز پیغام کی رسائی نے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو پیدا ہوتے ہی ختم کر دیا تھا، یہ ہی وجہ ہے کہ مظاہرین منتشر ہونے کے بجائے اپنے حق کے لیے ڈٹے رہے۔ ہم یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو بھی اُس وقت پابندی کا سامنا کرنا پڑا جب انقلاب کی لہر شام، لیبیا اور یمن میں داخل ہوئی۔ آمرانہ راج نے کرسی چھین جانے کے ڈر سے اپنی طاقت کا مظاہرہ دکھاتے ہوئے فیس بُک، یوٹیوب، ٹوئٹر سمیت کئی مختلف سائٹس کے استعمال پر پابندی عائد کر دی، تاکہ عوام کو حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی موثر ذریعہ نہ مل سکے۔ لیکن اس کے باوجود بھی انقلاب کی فضاء عرب ممالک میں پھیل گئی۔

ٹوئٹر پر افواہیں گشت کرنے لگیں کہ لیبیا کے اس وقت کے صدر، کرنل قدافی ملک چھوڑ کر بھاگئے ہیں۔ لیکن یہ محض افواہیں تھیں۔ درحقیقت وہ اپنے ہی ملک میں اپنے لوگوں کے ہاتھوں بُری طرح قتل کر دیئے گئے تھے۔ جس کی تصاویر 2011 کے آخر میں ٹوئٹر پر تیزی سے وائرل ہوئی۔ جس کے ساتھ ہی نیٹو کے کمانڈر نے بھی فیس بُک پوسٹ کے ذریعے لیبیا میں جاری جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

ٹوئٹر پر مقبول ترین الفاظ

2011 کے ٹوئٹر پر مقبول ترین ٹرینڈ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ لفظ ’’مصر‘‘ ٹرینڈ میں رہا۔ ٹوئٹر ویب سائٹ نے مقبول الفاظ کی فہرستیں مختلف موضوعات کی بنیاد پر مرتب کی تھی۔ جس میں خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے عنوان میں سرِفہرست الفاظ کا تعلق مصر کے انقلاب، امریکی فوج کی اوسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی اور جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی سے تھا۔ ’مصر‘ (egypt#) کی مقبولیت کی وجہ اس سال مصر میں آنے والا عوامی انقلاب تھا۔