دشمنِ جاں

May 01, 2018

لوگوں کی باتیں سنتے ہوئے، لکھاریوں کی تحریریں پڑھتے ہوئے، شاعروں کے کلام سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اور سیاستدانوں کے بیانات سے گزرتے ہوئے مجھے ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہر انسان، وہ خواندہ ہو یا نیم خواندہ، دانشور ہو یا غیر دانشور، حکمران ہو یا سیاستدان سبھی اپنے اپنے جذبات، احساسات، ضروریات اور اندیشوں کی آگ کی آنچ میں سلگ رہے ہیں۔ آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ جذبات، احساسات اور ضروریات کی اپنی اپنی آگ، اپنے اپنے دہکتے ہوئے انگارے اور اپنی اپنی آنچ ہوتی ہے جس میں انسان ہولے ہولے لاشعوری طور پر پگھلتا اور جلتا رہتا ہے۔ ان کی تپش یا حدت اندر ہی اندر سے انسان کو جلاتی اور کھاتی رہتی ہے لیکن اسے ہرگز یہ احساس ہوتا ہے نہ پتہ چلتا ہے کہ وہ خود اپنی ہی آگ میں جل رہا ہے اور یہ آگ زندگی کی موم بتی کو دھیرے دھیرے جلا کر گھٹا رہی ہے، کم کر رہی ہے اور ہر لمحہ موت کے قریب کر رہی ہے۔ نفسیات دان کہتے ہیں کہ یہ آگ شعور کی دین ہے اور جتنا بلند شعور ہو گا اُسی قدر تیز یہ آگ ہو گی۔ جانور شعور سے محروم ہیں چنانچہ وہ ان جذبات، احساسات، ضروریات اور اندیشہ ہائے دور دراز سے بھی محروم ہیں جن کی آنچ باشعور مخلوق کو سوکھی لکڑی کی مانند جلاتی اور ہر لمحہ اسے گھٹاتی رہتی ہے۔ یہ عجیب سا روڈ میپ ہے کہ اَن پڑھ اور نیم خواندہ، زندگی کے روزمرہ کے مسائل اور مشکلات کے احساس کی آگ میں جلتا رہتا ہے، پڑھا لکھا، عالم و فاضل اپنے جذبات، احساسات اور اندیشوں کی بے چینی میں تڑپتا رہتا ہے، شاعر تخیل کی آنچ میں پگھلتا رہتا ہے، سیاستدان اپنے سود و زیاں کے حساب اور مخالفین کی مخالفت اور دائو پیج کی بھٹی میں جلتا رہتا ہے اور اللہ والے عشق الٰہی اور وصال کی آرزو میں سلگتے رہتے ہیں۔ گویا قدرت نے ہر انسان کو شعور عطا کر کے اس کے اندر احساسات اور جذبات کی آگ روشن کر دی ہے جس کی آنچ اور تپش کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہو سکتی ہے لیکن یہ آگ ہر انسان کے اندر جلتی رہتی ہے اور اُس کی زندگی کی موم بتی کو پگھلاتی اور کم کرتی رہتی ہے۔
اللہ والوں کے باطن میں عشق الٰہی، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمنائے وصال کی آگ گل و گلزار بن جاتی ہے اور وہ اس کی خوشبو میں ہر دم محو اور مست رہتے ہیں۔ عشق کی آگ گل و گلزار بن کر اُن کے اندر ایک جہان آباد کر دیتی ہے جس کے کرشمے اور ہر لمحہ نازل ہوتی کرامات انہیں اپنے اندر اس طرح جذب کر لیتی ہیں کہ وہ خارجی دنیا سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور باطن کے نظاروں میں کھوئے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ان کے پاس آنے والا ہر شخص اُن پر منکشف ہو جاتا ہے، کبھی کبھی آنے والے حالات، حادثات اور واقعات قطار اندر قطار اُن کی نگاہوں میں اترنے لگتے ہیں اور کبھی کبھی اپنی جگہ پر بیٹھا صوفی دوسرے جہانوں، آسمانوں، مقامات اور ممالک کی سیر کر آتا ہے۔ دنیا داروں یا دنیا والوں کے باطن کا کشفی دروازہ ہمیشہ بند رہتا ہے چنانچہ وہ اپنے ہی خیالات، احساسات، محبت و نفرت اور دنیاوی ضروریات کی ہلکی سی آگ میں اس طرح جلتے رہتے ہیں کہ انہیں جلنے کا احساس ہوتا ہے نہ اپنی ہی آگ سے زندگی کی موم بتی پگھلنے کا پتہ چلتا ہے۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے محبت کی اپنی ٹھنڈک ہوتی ہے اور نفرت کا اپنا تنوریا بھانبڑ۔ صوفی کا باطن محبت سے لبالب بھرا رہتا ہے۔ وہ اللہ سے عشق کرتا اور اُس کی مخلوق سے بے لوث محبت کرتا ہے، اُس کا عشق بھی خالص اور اُس کی محبت بھی خالص ہوتی ہے، اس لئے اس کے اندر جلنے والے انسانی شعور کی آگ گل و گلزار بن جاتی ہے جس سے ابدی سکون اور قلبی راحت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دنیا والے اپنی محبتوں اور اپنی نفرتوں کے جال میں پھنسے رہتے ہیں۔ حرص و ہوس دولت، عہدے، شہرت، اقتدار اور اختیار کی، نفرت مخالف کی مخالفت، دشمن کی دشمنی، رقیب کی رقابت اور طاقتور کی طاقت سے۔ محبتیں بھی انسان کو بے چین رکھتی ہیں اور حرص و ہوس کی چتا بھی جلاتی رہتی ہے جس کی آنچ میں انسان آہستہ آہستہ دم پخت ہوتا رہتا ہے لیکن جتنا برا حال، سبق آموز اور قابل رحم انجام نفرتیں پالنے والوں کا ہوتا ہے اُس کا اندازہ اور تصور کرنا محال ہے۔ اپنے باطن میں نفرتوں کی آگ جلانے والے ہر لمحہ اس کے شعلوں میں جلتے اور تڑپتے رہتے ہیں۔ اُن کا رویہ، انداز، سوچ، گفتگو منفی ہو جاتی ہے، آنکھوں میں انتقام کے شعلے لپکنے لگتے ہیں، لہجے میں تلخی اتر آتی ہے اور بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے وہ زندگی کے توازن سے محروم ہو گئے ہیں۔ دھیرے دھیرے اُن کے اندر کی نفرت چہرے پر نظر آنے اور نگاہوں سے ٹپکنے لگتی ہے۔ ان کے فلسفہ حیات پر منفی خیالات اور انتقام غالب آ جاتے ہیں۔ نفرت کی آگ بھڑکتی ہے تو وہ خود نفرت کے پیامبر بن کر ہر طرف نفرت پھیلانے لگتے ہیں۔ اعتماد اور محبت کا خون کر کے نفرت کے الائو میں انسانی رشتوں کو جلا کر راکھ کرنے لگتے ہیں اور انتقام کی خواہش سے اندھے ہو جاتے ہیں جیسے اُن کی عقل سلیم پر پردہ پڑ گیا ہو۔ میرے نزدیک حرص و ہوس اور شدید حُبّ ِ دنیا سے کہیں زیادہ خطرناک نفرت کا جذبہ ہوتا ہے جو انسان کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو نفرت کے اپنے ہی جلائے ہوئے تنور میں جلتے اور روسٹ ہوتے دیکھا ہے اور اچھے بھلے معقول انسانوں کو نفرت کا قیدی بن کر پاگلوں کی سی حرکات کرتے بھی دیکھا ہے، اپنی ہی چالوں کے جال میں پھنستے بھی دیکھا ہے اور زندگی کی موم بتی کو دونوں طرف سے بیک وقت جلتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ موم بتی کا ایک طرف سے جلنا فطری تقاضا اور قدرتی بات ہے لیکن دونوں اطراف سے جلنا نفرت کا کارنامہ ہوتا ہے۔
ہمارا صوفی دوست کہا کرتا تھا کہ حرص و ہوس بھی خطرناک انسانی جذبے ہیں اور انسان کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں لیکن انسانی جذبات و احساسات میں خطرناک ترین جذبہ نفرت کا ہے۔ جس قلب میں نفرت نے گھر بنا رکھا ہو اُس قلب پر اللہ کے نور کی پھوار نہیں برستی۔ اس لئے ہرحال میں اپنے باطن کو نفرت سے پاک اور صاف رکھو۔ خلق خدا سے ہمدردانہ سلوک اور محبت، خدمت کے جذبے کو جنم دیتی ہے۔ بے لوث خدمت خلق سے دنیا اور آخرت دونوں سنورتی ہیں جبکہ نفرت جہنم کی ایک دوسری شکل ہے جس کی آگ میں انسان زندہ جلتا رہتا ہے۔ نفرت صرف گناہ سے جائز ہے، انسانوں سے کسی صورت بھی جائز نہیں۔ انسانوں سے نفرت کرنے والے خود ہی نفرت کی علامت بن جاتے ہیں اس لئے دل پہ گہرا گھائو لگے یا زخم، آپ سے زیادتی ہو یا بے انصافی یا تمہارا نقصان ہو، اپنے غصے، انتقام اور اس صورت حال سے پیدا ہونے والی نفرت پر قابو پائو اور صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھو کہ یہی سب سے بڑی بہادری ہے اور یہی آپ کی آزمائش اور امتحان ہے۔ نفرت کو ہرگز دل میں گھسنے نہ دو کہ یہ آپ کی سب سے بڑی دشمن ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)