سول افسران کی میرٹ سے ہٹ کر ترقیاں

May 17, 2018

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں Indian Administrative service کے افسران کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سول سرونٹس پر قوم کی انویسٹمنٹ ہوتی ہے اس لئے ان کا بہتر انداز میں استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اعمال حکومت کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیدنا حضرت عمر فاروقؓاور سیدنا حضرت علیؓ کے فرمودات سرکاری عہدیداران کو ناصرف درست سمت میں دیانت داری کے ساتھ کام کرنے کی رہنمائی کرتے ہیں بلکہ ناپسندیدہ چیزوں سے باز و ممنوع رہنے کی وعید بھی دیتے ہیں..... کتنی اچھی طرح امیرالمومنین نے اس اہل کار پر واضح کردیا کہ، یہ مال مجھے تحفے میں ملا ہے اور یہ میں نے سرکار کا حق وصول کیا ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تم اس منصب پر فائز نہ ہوتے تو میں دیکھتا کہ تمہیں یہ تحفہ کیسے ملتا ہے؟ آپ نے پرتعیش زندگی بسر کرنے پر گورنر مصر کو معزول کرکے بیت المال کے اونٹ چرانے پر معمور کردیا۔ یہ انصاف ہی تھا جس نے اسلام کی وسعت کو عرب کے ایک کونے سے دنیا کے آخری کونے تک پھیلانے میں اہم کردار اد کیا۔
مجھے اس درویش صفت ڈی ۔سی میاں فیض کریم کی یاد آرہی ہے جو ملتان میں سرکاری گاڑی پر دفتر جانے کے پیسے بھی خزانے میں جمع کراتے تھے۔سرکاری افسروں پر تو لازم ہے کہ وہ خود درست سمت میں کام کریں اور جس منصب کے لئے عوام سے وصول کردہ ٹیکسوں پر ان کی گزر اوقات ہے ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ رکھیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ قبیل تو اپنے ساتھ انصاف کرنے سے بھی قاصر ہے۔ سول سروس کے اس ڈھانچے میں سینیارٹی اور موزونیت لازمی چیزیں ہیں۔ محکمانہ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اتنی اسامیاں موجود ہوں، جن پر سینیارٹی اور موزونیت کے اصول کا اطلاق بخوبی ہوسکے۔ مگر حکمرانوں کی پسند ناپسند کا کیا کیجئے کہ ماضی قریب میں گریڈ 22میں من پسند افراد کو ترقی دینے کے لئے اپنی پرنسپل سیکرٹری صاحبہ کے وضع کردہ قانون کے مطابق اپنے قریبی افسروں کو پروموٹ کردیا گیا۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے ان ترقیوں کو کالعدم قرار دے کر اصول وضع کردیا کہ ہر اہل افسر کو اس کا حق ملے۔ مگر لگتا ہے کہ کچھ لوگ اس بات کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ جب تک ان کو سمجھایا نہ جائے وہ پسند ناپسند اور اپنی انا کے تحت لوگوں کے مقدر کے مالک بن جائیں۔
کتنے اہل لوگ پسند نا پسند کی کسوٹی پر پورا نہ اترنے کے باعث ترقی نہ پاسکے۔ سول افسران کی ترقیوں میں حق دار اپنا حق لینے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ کرپٹ مافیا کے خلاف لڑنا بہت مشکل ہے۔ حکومتی معاملا ت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ کرپٹ افسر کی حمایت کرنے والے بے شمار ہوتے ہیں۔ جس نے خلاف ضابطہ کام کرنا ہو یا کروانا ہو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن افراد کی شہرت اچھی ہے اور اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ وہ بھی کرپٹ افسران کے سامنے بند باندھنے سے اجتناب کرتے ہیں اور کرپٹ مافیا اپنے معاملات نمٹا لیتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جنوری میں ہونے والے سی ایس بی کو لے لیں۔ایک ایسے وقت میں سینٹرل سلیکشن بورڈ کیا گیا، جب این ایم سی اور ایس ایم سی کے کورسز آخری ہفتے میں تھے۔ 12جنوری کو نیشنل مینجمنٹ کورس اور سینئر مینجمنٹ کورس اختتام پذیر ہونا تھا۔ مگر شاطر افسران نے 9,10,11جنوری کو سینٹرل سلیکشن بورڈ کی میٹنگ کروادی۔ جس سے تمام اہل اور سینئر افسران ترقی پانے سے محروم رہے بلکہ جن افسران کا اپنے بیج میں آخری نمبر تھا اور سنیارٹی دور دور تک نہیں بنتی تھی بلکہ شہرت کے حوالے سے بھی شکوک و شہبات پائے جاتے تھے۔ انہوں نے چونکہ وقت سے پہلے سفارش کرواکر آؤٹ آف ٹرن کورسز کر لئے تھے، یوں وہ افسران پروموشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور سینئر افسران کو پروموشن سے محروم کردیا گیا۔ ایک مثال لے لیں۔ 28ویں کامن کے پی ایس پی افسران میں سنیارٹی 2پر موجود شخص پروموشن سے محروم کردیا گیا جبکہ اسی کامن کے 60ویں نمبر کے بندے کو پروموٹ کرکے ڈی آئی جی بنادیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت وقت دو روز بعد مکمل ہونے والے ایس ایم سی اور این ایم سی کا انتظار کرتی اور پھر سلیکشن بورڈ کا انعقاد کرتی تاکہ تمام امیدواروں کو پورا حق دیا جاتا مگر یہاں پر من پسند افراد کو نواز نے کے لئے بورڈ کورس مکمل ہونے سے ایک روز پہلے ہی کروا دیا گیا۔ پوری سول سروس کی تاریخ میںاس کی مثال نہیں ملتی۔ معاملہ صرف یہی نہیں رکتا بلکہ19مارچ کو وزیراعظم ہاؤس نے پروموشن حاصل نہ کرنے والے افسران کے کیسز کا دوبارہ جائزے کا حکم دیا۔ مگر اسٹیبلشمنٹ نے اس مرتبہ بھی سینئر افسران کے نام سی ایس بی کو نہیں بھجوائے، کہا گیا کہ وزیراعظم نے انہی افسران کے کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے، جن کے نام پہلے بورڈ میں شامل تھے۔ سینئر افسران کے نام نہ شامل کرنے پر وجہ بتائی گئی کہ ان افسران کے ورکنگ پیپر تیار نہیں ہیں اس لئے انہیں اس مرتبہ بھی سی ایس بی کی میٹنگ میں شامل نہیں کرسکتے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سینکڑوں افسران چھٹیاں لے کرسائیڈ پر بیٹھے ہیں جب کہ کچھ افسران اپنے جونیئرز کے ماتحت کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ حال ہے میرے ملک کی سول سروس کا۔ کالم کے آغاز میں بھارت میں کام کرنے والے آئی اے ایس کے افسران کی مثال اس لئے دی کہ ہمارے سرکاری بابو سمجھتے ہیں کہ وہ ایمپریل سول سروس یا انڈین سول سروس کے وارث ہیں۔جو سول سروس قیام پاکستان کے بعد بھارت میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے نام سے جانی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے نام سے مقبول ہے۔ بھارت میں ان افسران کی اتنی قدر ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ افسران کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور ان پر قوم کے پیسے کی انویسٹمنٹ ہوتی ہے۔ اس لئے ان سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام لیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارا کام الٹ ہے۔ ہم ریٹائرمنٹ سے پہلے ایسا سلوک کرتے ہیں کہ سول افسران ریٹائرمنٹ کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ یہ قبیل اپنے ساتھ انصاف نہیں کرتی تو کسی اور کے ساتھ کیا انصاف کرتی ہوگی۔ کاش ہمارے ملک کے سول افسران کم ازکم اپنے طبقے کے ساتھ تو مخلص ہوتے۔مگر یہ لوگ اپنے طبقے کو بھی انصاف نہیں دے سکتے تو کسی غریب شہری کو اس کا حق کیا دیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)