جہادی تنظیموں کو کام کرنے کی مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہئے،مفتاح اسماعیل

May 20, 2018

کراچی(ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام آنا لازمی ہوگیا ہے، ایکشن پلا ن پرعملدرآمد کر کے ایک سال میں گرے لسٹ سے نکل جائیں گے، پاکستان میں جہادی تنظیموں کو کام کرنے کی مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہئے۔ وہ جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں وفاقی وزیر نجکاری دانیال عزیز،سیکرٹری اطلاعات پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا روبینہ خالد، ڈپٹی سیکرٹری جنرل تحریک انصاف عمران اسماعیل او نمائندہ خصوصی دی نیوز زاہد گشکوری بھی شریک تھے۔عمران اسماعیل نے کہا کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ صرف دو جماعتوں کا نہیں ہونا چاہئے، مزید اسٹیک ہولڈرز شامل کیے جائیں، میڈیا پرسنز نگران حکومت میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔نگران وزیراعظم بالکل بے اختیار نہیں ہوتا۔زاہد گشکوری نے کہا کہ ایک نامور صحافی نے نگران وزیراعظم کیلئے لیڈر آف دی اپوزیشن کو درخواست دی ہے، وزیراطلاعات و نشریات کیلئے پانچ لوگوں نے دلچسپی کا اظہار کیا اس میں ایک میڈیا ہاؤس کے مالک بھی شامل ہیں،نگران وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے بھی دو صحافیوں نے اپنے کوائف آگے دیئے ہیں۔روبینہ خالد نے کہا کہ الیکشن کمیشن اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ نگران حکومت کی ضرورت نہ پڑے۔دانیال عزیز نے کہا کہ انتخابات میں مداخلت سیاستدان نہیں کوئی اور کرتا ہے، ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگران حکومت کے خدشات میں کوئی جان نہیں ہے، نئی حلقہ بندیوں کے ذریعہ نشستیں کم کر کے جھگڑے بڑھائے گئے۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئی سی آر جی نے ہمیں الیکشن پلان بھیجا ہے جس پر بینکاک میں بات ہوگی، ایکشن پلان دیکھ کر لگتا ہے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے، ایسے بنچ مارکس دیئے جارہے ہیں جن پر چند ماہ میں عملدرآمد کرنا بہت مشکل ہوگا، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام آنا لازمی ہوگیا ہے، ایکشن پلا ن پرعملدرآمد کر کے ایک سال میں گرے لسٹ سے نکل جائیں گے، پاکستان میں کچھ جہادی تنظیمیں چندے جمع کررہی ہوتی ہیں، جنہیں بظاہر پاکستان میں آپریٹ کرنے کی آزادی ہے، اس کے شواہد سفارتخانے جمع کرتے ہیں جو ایف اے ٹی ایف تک پہنچ جاتے ہیں، پچھلے ایک سال میں قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا گیا ،اس کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ سیاسی بنیاد پر تھا، ایف اے ٹی ایف میں ہماری شنوائی زیادہ اچھی نہیں ہے، وہاں بہت سے ممالک پاکستان کا بیانیہ نہیں سنتے ہیں، پہلے پاکستان کی رپورٹنگ کا نظام بہتر نہیں تھا، ہم کام کرلیتے تھے لیکن اس کی رپورٹنگ نہیں کرتے تھے، اب ہم بہترین ڈاکومنٹیشن کررہے ہیں ،امریکا جن اقدامات کیلئے کہہ رہا ہے اس سے بیس سال کی جنگ میں چلے جائیں گے، پاکستان میں جہادی تنظیموں کو کام کرنے کی مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہئے، قومی مفاد کیخلاف امریکی مطالبات پورے کرنے سے معذرت کرلینی چاہئے۔عمران اسماعیل نے کہا کہ یہ طریقہ درست نہیں کہ صرف دو جماعتیں نگران وزیراعظم کا فیصلہ کریں ، نگران وزیراعظم کے چناؤ میں مزید اسٹیک ہولڈرز بھی شامل ہونے چاہئیں، میڈیا پرسنز اگر نگران حکومت میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے، نگران وزیراعظم کیلئے چندنام اپوزیشن لیڈر کو دیئے ہیں، ہماری کوشش ہے نگران حکومت کیلئے غیرجانبدار لوگ لائے جائیں۔روبینہ خالد نے کہا کہ نگران وزیراعظم کیلئے وسیع مشاورت کی گئی تو ایک نام پر متفق ہونا مشکل ہوگا، الیکشن کمیشن اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ نگران حکومت کی ضرورت نہ پڑے، وفاق اور صوبوں میں کام چیف سیکرٹریز نے ہی کرنا ہوتا ہے تو پھر نگراں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بنا کر کچھ حاصل نہیں ہوگا، صحافی برادری کا کام تھانیدار پر چیک رکھنا ہے وہ خود تھانیدار بن گئے تو چیک کون کرے گا، صحافیوں کو نگران سیٹ اپ میں شامل نہیں ہونا چاہئے، الزامات لگانے سے بہتر ہے کہ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنایا جائے۔زاہد گشکوری نے کہا کہ پاکستان کے ایک نامور صحافی نے نگران وزیراعظم کے عہدے کیلئے لیڈر آف دی اپوزیشن کو درخواست دی ہے، اس صحافی نے درخواست کے ساتھ حلف نامہ بھی دیا ہے کہ میں پاکستان کا وفادار شہری ہوں، میرا سول ملٹری دونوں سے اچھے تعلقات ہیں اس لئے میں نگرا ن وزیراعظم کیلئے بہترین چوائس ہوسکتا ہوں، وزیراطلاعات و نشریات کیلئے پانچ لوگوں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے اس میں ایک میڈیا ہاؤس کے مالک بھی شامل ہیں۔زاہد گشکوری نے کہا کہ نگران وزیراعظم کیلئے گیند پیپلز پارٹی کے کورٹ میں ہے، اس وقت بحث چل رہی ہے کہ منگل تک نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہواتو الیکشن کمیشن کے ذریعہ ایسا نگراں سیٹ اپ لایا جاسکتا ہے جو اسے طویل کرنے کی خواہش رکھتا ہو اور اپنی مرضی کے نتائج اسی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، سینئر صحافیوں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، نگران وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے بھی دو صحافیوں نے اپنے کوائف آگے دیئے ہیں۔دانیال عزیز نے کہا کہ سب کو پتا ہے نگران حکومت کو کون اور کیسے استعمال کرتا ہے، انتخابات میں مداخلت سیاستدان نہیں کوئی اور کرتا ہے، ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگران حکومت کے خدشات میں کوئی جان نہیں ہے۔