حیراں ہوں دل کو روئوں کہ…

May 25, 2018

دنیا کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی 46فیصد آبادی 15سے 25سال کے نوجوانوں کی ہے۔ اس میں ان نوجوانوں کی تعداد جو فی الوقت بیکار ہیں وہ 90فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار میں سرکاری افسر کی طرح رعب ڈالنے کیلئے نہیں بتا رہی، میرا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کبھی مافوق الفطرت قوّتوں کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہوئے خوش ہوتے ہیں۔ میں تو حیران ہوں بلاول بھٹو پر، یہ نوجوان جب بی بی سی یا سی این این پر انگریزی بولتا ہے تو اتنا سنجیدہ، بامعنی اور پروقار لگتا ہے، بولتا بھی بے ساختہ ہے مگر اس کو اردو بولتے ہوئے کن مفقودالخبر دانشوروں کی لکھی ہوئی تقریریں پڑھنے کو کہا جاتا ہے، یہاں صاف لگتا ہے وہ نہیں، تقریر لکھنے والا بول رہا ہے۔ چلو وہ بھی صحیح،مگرپاکستان کے مسائل اور مصائب کا ادراک بھی تو ہونا چاہئے۔ آخر 6ماہ میں افراط زر 7فیصد ہو گئی ہے۔ گزشتہ 6ماہ میں بچّوں کی345لاشیں ملی ہیں جن میں سے 99فیصد لڑکیوں کی ہیں۔
کراچی میں غضب کی گرمی اور پانی کی کمیابی کا عذاب، شہر بھر کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ بدین میں پانی بالکل خشک ہو گیا ہے۔ لوگ گڑھے کھود کر زمین سے پانی نچوڑ رہے ہیں۔ اس وقت بھی دراوڑ کے قرب و جوار میں بھینسیں اور عورتیں ایک جگہ سے پینے کا پانی لے رہی ہیں۔ دنیا بھر میں آج سے20سال پہلے کانفرنسوں میں بتایا گیا تھا کہ اگلے 30سال میں زمین کا پانی ختم ہو جائے گا۔ موسم کی تبدیلیوں، گلیشئر کے پگھلنے کے اثرات پر دنیا بھر نے سوچنا شروع کر دیا تھا۔ ہمارے سارے سرکاری دفتروں کے سارے باتھ روم کی ٹونٹیاں خراب یا ہر وقت پانی بہتا رہتا ہے۔ ہمارے سیاستدان نہ کوئی ایجنڈا رکھتے ہیں نہ حکومت کوئی منصوبہ نہ کوئی ماہرین معیشت کی بات سنتا ہے۔ یوم مئی گزرا، ہر روز سیاسی جلسے ہیں۔ مجال ہے کسی نے کہا ہو کہ جس مزدور کا دن آپ منا رہے ہیں وہ تو مزدوری آج بھی کر رہا ہے کہ گھر کا چولھا جل سکے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہم شکاگو کے شہیدوں کو یاد کرتے ہوئے بات شروع کرتے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ امریکہ ہی میں یکم مئی کو یوم مزدور نہیں منایا جاتا ہے۔
اس دفعہ ٹی وی کو توفیق ہوئی کہ یوم مزدور پر مشاعرہ کروایا جائے۔ شکر ہے کچھ تو بدلا مگر شاعروں نے کیا کیا۔ اے مرے پیارے مزدور زندہ رہو، پائندہ رہو۔ مجال ہے کسی ایک شاعر نے اپنے قلم مزدور ہونے اور روٹی کمانے کی مشقّت کو لفظوں میں بیان کیا ہو، اسی طرح ’یوم پاکستان‘ پر بھی ہوتا ہے۔ آخر سچ سے آنکھیں کون چار کرےگا ۔ عباس تابش جو زرخیز شاعر ہے، اس نے بھی سوکھے ہوئے تالاب پہ ٹھہرے ہوئے ہنس کو یاد کیا، البتہ شعیب خالق نے کچرا چننے والے بچّوں پہ اچھا ڈرامہ پیش کیا۔ میری سمجھ میں تو یہ نہیں آتا کہ آخر بار بار چینل مشرف کا انٹرویو کیوں نشر کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے بار بار بانی ایم کیو ایم سے ڈر کر اسکی گفتہ اور ناگفتہ باتوں کیلئے اپنے دروازے کھول دیئے۔ یاد ہے ہمارے معاصر انگریزی اخبار کے احمد علی خان کے دفتر میں ایم کیوایم والے اپنا پرنٹر لگا گئے تھے کہ اس پر جو خبر آئے گی وہ شائع ہو گی۔ وہ تو حوصلہ تھا کمزور سے مگر باہمت احمد علی صاحب کا کہ انہوں نے حکم نہیں مانا تھا۔ اب چونکہ پھر مہاجر کے نام پر لوگ سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں کم از کم کراچی میں 10سال تک ہونے والی دہشت گردیاں اور بوری میں بند لاشیں بھلانی نہیں چاہئیں بلکہ ان کے نام لیوائوں کو یاد کراتے رہیں۔
گزشتہ ایک ماہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ چاہے ہزارہ کمیونٹی ہو کہ نرسز یا ڈاکٹرز، ہفتوں ہڑتال اور مظاہرے کرتے رہیں۔ وزیروں کی ناقدری کی انتہا یہ ہے کہ ہزارہ کے لوگوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس طرح کے ہر موقع پر چیف آف اسٹاف کو جانا پڑتا ہے۔ اگر یوں ہی کار سرکار چلنے ہیں تو پھر کل ہی چند دن کیلئے ایک نئے وزیر کو کیوں حلف دلوایا گیا۔
آپ کہیں گے میری سوچ ہی منفی ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 40سال پہلے میں ٹیکساس میں تھی، وہاں ہر گھر سے تیل نکل رہا تھا۔ اس وقت امریکی حکومت نے پابندی لگائی تھی کہ سب جگہ تیل محفوظ کیا جائے گا۔ جب مشرق وسطیٰ کا تیل ختم ہو گا تو پھر ہم اپنا تیل استعمال کریں گے۔ جیسے دیکھیں اس وقت چین میں 30 کروڑ لال بیگ پالے جا رہے ہیں، باقاعدہ نرسریز بنائی گئی ہیں۔ فلسفہ یہ ہے کہ ایک تو فرائی کر کے کھانے میں صحت کیلئے مفید ہوتے ہیں اور دوسرے ان کا تیل بنا کر دنیا بھر میں فروخت کریں گے۔ آخر کئی ملکوں میں چھپکلیاں اور بندر کا دماغ Delicacy میں شمار ہوتا ہے۔ آخر جاپان اور کوریا میں سمندر کی کائی کو صاف کر کے خوراک کا حصّہ بنایا گیا ہے اسی لئے ان ملکوں کے لوگوں کے بال کالے رہتے ہیں۔ شکر ہے کہ اب مغربی اخباروں اور میڈیا نے خوب لکھا ہے کہ ہلدی دماغ اور ہڈیوں کیلئے بہت مفید ہے تو ہمارے یہاں ہلدی کھانا بھی فیشن بن گیا ہے۔
پھر جاتے جاتے ڈپریشن والی بات، اس وقت دہشت گردی میں اوّل نمبر پر افغانستان ہے، دوسرے نمبر پر پاکستان اور تیسرے نمبر پر انڈیا۔ کیا اچھی نظم جاوید اختر نے انڈیا میں گیروے رنگ کی جنونیت کیخلاف لکھی ہے۔ ہم کچھ لکھیں تو نادیدہ لوگ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اب تو تشہیر کا نیا طریقہ Metoo #کے ذریعہ ملکوں ملکوں شہ سرخیاں بنا رہا ہے۔ بے شک اظہار الحق اس رویّے کا ساتھ دینے والوں پر تین حروف بھیجیں مگر سیاست سے صحافت تک کی ذہنیت پہ ملال ہوتا ہے، بے چارہ یوم صحافت۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)